فلسطینی شاعر رِفعَت العَرعِير کی میراث ان کی آخری ویڈیو
اِنَا لِلّٰہِ وَاِنَآ اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔
نومبر 2023 کی یکم تاریخ ہے، ایک فلسطینی شاعر بموں اور آگ کی بارش کے دوران غزہ کے کھنڈروں میں کہیں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اسے کہا گیا کہ اس علاقے سے زندگی بچا کر دنیا میں کہیں اور چلا جائے لیکن وہ اپنے شہر سے باہر بھاگنے کی بجائے اپنی آبائی دیواروں میں محصور رہنا اور وہیں بہادری سے دشمن کا سامنا کرنا پسند کرتا ہے۔
وہ اپنے ٹوئٹر پر ایک نظم پوسٹ کرتا ہے۔ نظم جسے سوشل میڈیا پر لگاتے ہوئے اسے کوُچ کا اِذن سنائی دے رہا ہے۔
اگر مجھے موت نے آ لیا
تو
تمہیں زندہ رہنا ہو گا
میرا یہ قصہ سنانے کے لیے
میری میراث بانٹنے کے لیے
کپڑے کا ایک ٹکڑا خریدنے کے لیے
اور کچھ دھاگے بھی
ان کپڑوں اور دھاگوں سے
تم ایک پتنگ بنانا
لمبی دم والی سفید پتنگ
تاکہ غزہ میں کہیں کوئی بچہ
اپنے باپ کا انتظار کرتے ہوئے
اگر آسمان کی طرف دیکھے
اس باپ کا انتظار
جو شعلوں میں گھرا رخصت ہوا
بغیر کسی کو الوداع کہنے کی مہلت پائے
اپنے گوشت پوست کے بغیر
اپنے آپ کے بغیر
تاکہ وہ بچہ اگر یہ پتنگ فضا میں دیکھے
تو ایک لمحے کو سوچے کہ جیسے کوئی فرشتہ
اس کے باپ کو ہمراہ لیے
آسمان سے بس اب آنے کو ہے
اگر مجھے موت نے آ لیا
تو اس پتنگ کو
امید بننے دینا
ایک داستان بننے دینا
شبِ جمعہ، سات دسمبر 2023 کو وہ 44 سالہ شاعر، رِفعَت العَرعِير اسرائیلی فضائی حملوں میں اپنے اہل خانہ سمیت اپنی سرزمین غزہ سے رخصت ہو گئے۔ یہ نظم اب تک دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔ بقول فیض احمد فیض؛
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
رِفعَت العَرعِير غزہ یونیورسٹی میں انگریزی کے معلم تھے اور وہ اس زبان کو آزادی سے تعبیر کرتے تھے۔ ایسی زبان جس کے ذریعے کوئی مظلوم اپنی داستان دنیا بھر کو سنا سکتا ہے، ایسی زبان جو ظالم کو بھی سمجھ آتی ہے۔ اسی زبان میں فلسطین کی کہانیاں انہوں نے دنیا تک پہنچائیں۔
اپنی آخری ویڈیو میں ویڈیو کانفرنس پر موجود چار ساتھیوں سے وہ کہتے سنائی دے رہیں کہ؛
’یہاں بالکل اندھیرا ہے، پانی بھی نہیں، غزہ سے نکلنے کے سب راستے اب بند ہو چکے ہیں۔ ہم کیا کریں؟ ڈوب جائیں؟ اجمتماعی خود کشی کر لیں؟ کیا اسرائیل یہ چاہتا ہے؟
میں ایک استاد ہوں، میرے پاس ہتھیار کے جیسی کیا چیز اس گھر میں ہو سکتی ہے؟ ایک قلم میرے پاس موجود ہے جو شاید اتنا سخت ہو کہ اس سے کسی پر حملہ کیا جا سکے۔ لیکن اگر اسرائیلی ہمارے گھروں میں گھس کے حملہ کریں گے، ہمیں قتل کریں گے، تو میں اس قلم سے اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کروں گا، اپنا دفاع کروں گا، چاہے میں اس کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکوں لیکن یہ میرا آخری دفاع ہو گا۔
’اور غزہ میں ہر شہری کے جذبات یہی ہیں، ہم بے یارومددگار ہیں، ہمارے پاس لُٹانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے!‘
ان کی بات ختم ہونے کے بعد باہر ایک دھماکہ ہوتا ہے۔
نوجوان فلسطینی شاعر مصعب ابو طہٰ رفعت کے دوست تھے، انہوں نے ہی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں رفعت کے قتل کے بعد ان کی یہ ویڈیو شیئر کی۔
انہوں نے لکھا ’دو دن پہلے رِفعت کو اسرائیلی انٹیلیجنس سے ایک فون کال موصول ہوئی کہ انہیں علم ہے کہ رِفعت بچوں کے ایک سکول میں پناہ گزین ہیں۔ فون پر انہیں کہا گیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔‘
’رِفعت نے خاموشی سے سکول چھوڑا اور اپنی ہمشیر کے یہاں چلے گئے۔ شام چھ بجے وہ اپارٹمنٹ بموں سے ملیامیٹ کر دیا گیا۔ رِفعت، ان کی بہن اور بہن کے چار بچے قتل کر دیے گئے۔‘
شاعر اور مصنف رِفعَت العَرعِير نے اپنی زندگی غزہ کے مصائب کو دستاویزی شکل دینے کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
ایکس پلیٹ فارم پر ان کا نام – غزہ میں رفعت – اپنے شہر کے ساتھ ان کی محبت کا نشان بنے اب بھی موجود تھے۔
اسرائیلی جبر کے دور میں فلسطینی ادب کو بچائے رکھنے کے لیے وہ نئی کہانیاں اور نظمیں تخلیق کرنے کی زندہ ترغیب تھے۔ وہ غزہ کے ایک جریدے میں شریک مدیر تھے اور ’غزہ رائٹس بیک‘ نامی کتاب کے تدوین کار تھے جس میں فلسطینی نوجوان مصنفین کی مختصر کہانیاں شامل ہیں۔
تو
تمہیں زندہ رہنا ہو گا
میرا یہ قصہ سنانے کے لیے
میری میراث بانٹنے کے لیے
رِفعَت العَرعِير کی یہ میراث ان کی شاعری ہے، ان کی کتابیں ہیں، سوشل میڈیا پر موجود ان کی ویڈیوز ہیں اور ان کا وہ آخری پیغام ہے جو تاابد مہذب دنیا کے چہروں پر سیاہی کا ایک نشان بنا رہے گا۔