سیکیورٹی معاہدے کی ناکامی امریکا ” نائجر” چھوڑنے پہ مجبور
امریکا نے نائجر سے ایک ہزار سے زیادہ فوجیوں کا انخلا کرنے کا فیصلہ کرلیا، یہ ایک ایسا قدم ہے جو روس کے لیے ایک اسٹریٹجک فتح کے مترادف ہے اور جو امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کو اپنی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردے گا۔دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ مغربی افریقی ملک کی حکمران فوجی جنتا کی جانب سے واشنگٹن کے ساتھ ایک سیکیورٹی معاہدے کو منسوخ کرنے کے ایک ماہ بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت نائجر نے امریکی افواج کو اپنی سرزمین پر دہشت گردوں سے لڑنے کی اجازت دی تھی۔
امریکی حکام نے امید ظاہر کی تھی کہ خفیہ طریقے سے ہونے والی بات چیت سے 12 سال پرانے معاہدے کو بچایا جا سکتا ہے، جو 15 مارچ کو جنتا کے ترجمان کی جانب سے نائجر میں امریکی فوج کی مسلسل موجودگی کو ’غیر قانونی‘ قرار دینے کے بعد خطرے میں پڑ گیا تھا۔لیکن امریکا نے بالآخر اس ہفتے واشنگٹن میں نائب وزیر خارجہ کرٹ کیمبل اور نائجر کے وزیر اعظم علی لامین زین کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے بعد شکست تسلیم کر لی۔
آنے والے مہینوں میں ہونے والے انخلا کا مطلب ہے کہ اگادیز میں قائم بیس 201 کے نام سے جانے والی امریکی ڈرون سہولت بند ہوجائے گی جو 2018 میں 11 کروڑ ڈالر کی لاگت سے کھولی گئی تھی۔یہ اڈہ، افریقا میں امریکی ڈرون کی اہم تنصیبات میں سے ایک ہے جو ساحل ریجن میں جہادی گروپوں کے خلاف کارروائیوں میں استعمال ہوتا رہا اور مبینہ طور پر یہ 2019 میں لیبیا میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف مہلک حملوں کی ایک سیریز کے لیے لانچ پیڈ تھا۔
نائجر کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات گزشتہ جولائی میں اس وقت سے کشیدہ ہیں جب ایک بغاوت کے بعد جمہوری طور پر منتخب صدر محمد بازوم کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا، امریکیوں کی جانب سے ان کی رہائی کے مطالبات کے باوجود وہ گھر میں نظر بند ہیں۔بغاوت کے بعد سے، نائجر کے نئے رہنماؤں نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرلیے ہیں۔ملک میں روسی فوجی سازوسامان اور مشیروں کی آمد کے چند ہی دن بعد نائیجیریا کے دارالحکومت نیامی میں ہزاروں مظاہرین نے گزشتہ ہفتے جمع ہو کر امریکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔