عسکریت پسندوں کی حکمت عملی اور تکنیک میں تبدیلی
عسکریت پسند گروہوں کی گذشتہ دو دہائیوں کے دوران حکمت عملی، تکنیک اور طریقہ کار میں تبدیل دیکھی گئی ہے جس سے عسکریت پسندوں کی بھرتی، فنڈ اکٹھا کرنے، پروپیگنڈا کرنے اور حملے کرنے کے طریقوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔عسکریت پسندوں نے انسداد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مرکزیت کے دھارے سے نکال کر غیر مرکزیت اور چھوٹے چھوٹے سیلز کی طرف منتقل کر دیا ہے اور اس ساری صورت حال میں ان گروہوں پر انحصار زیادہ بڑھ گیا ہے۔
عسکریت پسندی کی غیر مرکزیت کے نتیجے میں ’تشدد کی پرائیوٹائزیشن‘ اور ’روزمرہ زندگی کی ویپنائزیشن‘ ہوئی ہے، جہاں دہشت گردوں نے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے گاڑیوں سے ٹکرانے اور خود ساختہ بم جیسے آسان طریقوں پر انحصار بڑھا دیا ہے۔وہی فردی عسکریت پسند زیادہ تر حملوں کے لیے ڈو اِٹ یور سیلف (ڈی آئی وائی) طریقہ کار کی پیروی کر رہے ہیں، جس کی تحقیقات مشکل ہے۔ اس رجحان کے نتیجے میں عسکریت پسندی کے دو وسیع اثرات سامنے آئے ہیں۔ پہلے عسکریت پسندی کے حملوں کی شدت اور مہلکیت میں کمی آئی ہے جب کہ دوسرا 11/9 اور لندن بم دھماکوں جیسے حملوں کا خاتمہ ہوا۔
عسکریت پسندی کے ڈھانچے میں غیر مرکزیت کی وجہ سے عسکریت پسندی کا فرنچائز ماڈل سامنے آیا ہے، جہاں القاعدہ اور داعش جیسے بڑے گروہ نہ صرف موجود ہیں بلکہ اپنی شاخوں کے ذریعے کبھی کبھی موجودگی ظاہر بھی کرتے رہتے ہیں۔آج دونوں گروہوں کی فرنچائزز ان سے زیادہ مضبوط ہیں۔ مثال کے طور پر افریقہ اور افغانستان میں داعش کی شاخوں نے عراق اور شام میں داعش کے وجود کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح القاعدہ کی مشرقی افریقی گرو الشباب، ساحلی جماعت نصر الاسلام والمسلمین اور جزیرہ نما عرب میں یمنی القاعدہ کے پاس پہلے سے زیادہ وسائل ہیں۔
عسکریت پسندی کی تشکیل میں ڈیجیٹل کمیونیکیشنز اور سوشل میڈیا کا کردار فارمیشنل ڈومین میں بہت دور رس ہے۔ داعش ایک بڑے سامعین تک پہنچنے اور غیر ملکی جنگجوؤں کو اپنی طرف راغب کرنے اور اپنے بیانیہ کو وسعت دینے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے، جب کہ دوسرے عسکریت پسند گروہوں نے بھی اس راہ پر چلتے ہوئے انہی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے۔تنقیدی طور پر سوشل میڈیا نے عسکریت پسندی کے لیے بھرتی کی رکاوٹوں کو کم کیا ہے، جس سے بنیاد پرستوں کے لیے انتہا پسند مواد تک رسائی، پرتشدد انتہا پسند گروہوں کے ساتھ منسلک ہونے یا ڈی آئی وائی کے طریقہ کار کو فروغ دینے والے مختلف کتابچے پڑھنا آسان ہو گیا ہے۔
سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی آمد نے عسکریت پسندی کے ہتھکنڈوں کی تکنیکوں اور طریقہ کار پر تین اہم اثرات مرتب کئے ہیں۔سب سے پہلے معلومات کے بہاؤ کی رفتار اور عسکریت پسندی میں داخلے میں رکاوٹوں میں کمی نے بنیاد پرستی کے عمل کو مختصر کر دیا ہے۔ دوسرا بنیاد پرستوں کی اوسط عمر میں بھی کمی آئی ہے کیونکہ بچوں کو عسکریت پسند گروہوں کے پروپیگنڈہ، معلومات اکٹھا کرنے اور خودکش بم حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔تیسرا سوشل میڈیا نے مقامی اور عالمی زمروں کو دھندلا کر دیا ہے۔اسی طرح ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیاں (یو اے ویز)، مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ڈی تھری پرنٹ شدہ ہتھیاروں نے تشدد کو جمہوری رخ دیا ہے اور ریاست کے لیے خطرات پیدا کیے ہیں۔ وقت کے ساتھ جیسا کہ تجارتی طور پر دستیاب ٹیکنالوجیز زیادہ صارف دوست، قابل رسائی اور سستی ہو جائیں گی، عسکریت پسند انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا تیز کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق دو درجن سے زیادہ عسکریت پسند گروہوں نے ڈرونز کے ہتھیار حاصل کیے ہیں اور انہیں پروپیگنڈا کے فروغ اور حملوں کے لیے استعمال کیا۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت عسکریت پسندوں کی حکمت عملی کے فوائد میں بھی اضافہ کرے گی، جس سے وہ خود کش بمباروں کے طور پر دھماکہ خیز مواد سے لدی خود مختار گاڑیاں استعمال کر سکیں گے۔اسی طرح موسمیاتی تبدیلی اور ریاستیں جس طرح سے اس سے نمٹیں گی کے عسکریت پسندی پر نئے اثرات پڑیں گے۔2023 کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں عسکریت پسندی سے متاثر ہونے والے سرفہرست دس ممالک میں سے چھ ان 25 ریاستوں میں بھی شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں۔
اگرچہ عسکریت پسندی پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بلاشبہ ہیں، لیکن اس کی درست پیمائش ابھی بھی مشکل ہے۔اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی بنیاد پرستی کے پہلے سے موجود حالات کو مزید خراب کر سکتی ہے، خصوصاً ان کمزور ریاستوں میں جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔موسمیاتی تبدیلی مستقبل میں عسکریت پسندی کو تین طرح سے متاثر کرے گی۔پہلا یہ عسکریت پسند گروہوں کو فائدہ اٹھانے کے نئے مواقع پیدا کرے گی۔دوسرا یہ ان گروہوں کو اپنے نظریاتی فریم ورک کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب اپنی پالیسییاں بنانے میں راستہ فراہم کر ے گی۔تیسرا عسکریت پسندی کی نئی شکلیں پیدا کرے گی اور عسکریت پسند گروہ آب و ہوا کے خطرے سے دو چار ریاستوں میں مقامی آبادیوں میں حکمرانی کے خلا کو پُر کریں گے۔ ایسا کرنے سے وہ مقامی آبادی کی ہمدردیاں جیتنے، ان کی مقبولیت اور قانونی حیثیت کو بڑھانے، اجنبی نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور ریاستوں کے اختیار کو مزید کمزور کریں گے۔
عسکریت پسندی روایتی طور پر مضبوط ریاستوں کے خلاف کمزوروں کا ہتھیار رہا ہے۔تاہم دہشت گردی زیادہ متنوع ہو گی۔ ڈی آئی وائی حملے زیادہ رجحان کے ساتھ پھیلے گے۔ جہادی اور انتہائی دائیں بازو کے درمیان عالمی دہشت گردی کی موجودہ تقسیم کی خصوصیات مستقبل قریب تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔اس مرحلے پر یہ بتانا مشکل ہے کہ کون سا تناؤ سب سے اوپر آئے گا۔ کسی بھی قیمت پر عسکریت پسند گروہ خطرے سے بچنے کے باوجود، کمزور گورننس، ابھرتی ہوئی نئی ٹیکنالوجیز، ڈیجیٹل کمیونیکیشن اور موسمیاتی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
کالم نگار :- عبدالباسط خان