ایران میں انتخابات، سچائی اور شفافیت کی مثال
اسلامی جمہوریہ ایران میں چند دن پہلے قومی اسمبلی اور ایکسپرٹس کاونسل کے انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔ ان انتخابات نے ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام کے دشمنوں کو مایوس کر دیا ہے اور ان کی اس نفسیاتی جنگ پر بھی پانی پھیر دیا ہے جو انہوں نے تقریباً ایک سال پہلے سے شروع کر رکھی تھی اور مسلسل اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں مصروف تھے کہ آئندہ الیکشن میں عوامی شرکت 20 فیصد سے بھی کم رہے گی۔ البتہ ان کا یہ زہریلا پروپیگنڈہ گذشتہ ایک سال میں شدت اختیار کر چکا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سامراجی طاقتوں کے کٹھ پتلی 200 سے زائد فارسی زبان میں سرگرم چینل گذشتہ چند عشروں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک کے حمایت یافتہ ان میڈیا ذرائع کا واحد مقصد ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ جاری رکھنا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف میڈیا پر اس نرم جنگ کی واضح ترین مثال اس وقت سامنے آئی جب 2009ء میں انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایران میں منعقدہ صدارتی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیے۔ ان ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ الزامات ایسے وقت سامنے آئے جب ایران میں جیتنے والے صدارتی امیدوار کے ووٹ دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار سے 1 کروڑ 10 لاکھ زیادہ تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی دشمن طاقتوں نے ملک کے اندر موجود فتنہ انگیز عناصر کی مدد سے انتخابات میں دھاندلی ہونے کی مہم کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر جلاو گھیراو اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ یہ جھوٹ جس قدر واضح تھا، دشمن کے میڈیا ذرائع کی مہم بھی اسی قدر شدید تھے اور بڑی تعداد میں سادہ لوح افراد اس سے دھوکہ کھا کر نظام کے خلاف صف آرا ہو گئے۔
لیکن یہ جھوٹی مہم زیادہ عرصہ نہیں چل سکی اور بہت جلد اس فتنے میں ملوث چیدہ چیدہ رہنماوں نے خود ہی اس حقیقت کا اعتراف کرنا شروع کر دیا کہ انتخابات میں دھاندلی ایک جھوٹا الزام تھا اور وہ دشمن کے میدان میں کھیل رہے تھے۔ اسی طرح انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات کیلئے ایسا مضبوط نظام وضع کیا گیا ہے جس کی بدولت دھاندلی کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فتنے میں شامل مرکزی افراد کے خلاف عدالتی کاروائی انجام پائی تو انہوں نے عدالت میں بھانڈا پھوڑنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ "دھاندلی” درحقیقت ایک کوڈ ورڈ تھا جس کا اصل مقصد ملک بھر میں انارکی اور بدامنی پھیلا کر اسلامی جمہوری نظام کو کمزور کرنا تھا۔ اس فتنے کے مرکزی رہنما، جو ایک زمانے میں ایران کا صدر بھی رہ چکا تھا، نے آخرکار کئی سالوں بعد یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی اس الیکشن میں دھاندلی کا دعوی نہیں کیا۔
ایران میں گذشتہ چند عشروں سے عوام شدید اقتصادی مسائل سے روبرو ہیں جس کے باعث گذشتہ چند الیکشن میں عوام کی شرکت پہلے کی نسبت کچھ کم رہی ہے۔ ایران میں منعقد ہونے والے الیکشن کے نتائج سچے اور شفاف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ اگرچہ عوامی شرکت کا کم ہونا نظام کے حق میں نہیں لیکن اس کے باوجود حقیقی نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے اور کم سطح پر انجام پانے والی عوامی شرکت کا بھی اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر ایران میں الیکشن انجینئرڈ ہوتے تو کبھی بھی عوام کی کم شرکت منظرعام پر نہ لائی جاتی۔ مزید برآں، گذشتہ چند عشروں میں عوام نے مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے افراد کو ووٹ دے کر کامیابی دلوائی ہے۔ کوئی خود کو اعتدال پسند اور اصلاح طلب کہتا تھا تو کوئی خود کو اصول پسند کہتا تھا۔ لیکن جو چیز طے تھی وہ یہ کہ عوام نے جسے ووٹ ڈالا ہوتا تھا بیلٹ باکس سے نتائج بھی اسی کے حق میں باہر نکلتے تھے۔
دنیا میں امریکہ جیسے ایسے ممالک بھی موجود ہیں جو خود کو جمہوریت کا چیمپئن اور علمبردار سمجھتے ہیں لیکن وہاں ووٹنگ کا نظام ایسا ہے کہ ضروری نہیں وہی شخص جیت سے ہمکنار ہو جس کے حق میں عوام نے ووٹ ڈالا ہو۔ امریکی صدر کا انتخاب الیکٹورل طریقے سے ہوتا ہے جس میں عوام کے منتخب نمائندے یا الیکٹورل نیا صدر چنتے ہیں۔ اب ہو سکتا ہے ایک رہاست میں کوئی الیکٹورل ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کے ووٹ حاصل کر کے اس مقام تک پہنچا ہو لیکن وہ قانونی لحاظ سے اس بات کا پابند نہیں ہوتا کہ اس نے ضرور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنا ہے بلکہ اسے یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے کہ مخالف پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈال دے۔ اس طریقہ کار کا نتیجہ امریکی تاریخ میں کئی بار دیکھا جا چکا ہے جس کی تازہ ترین مثال موجودہ صدر جو بائیڈن کا انتخاب ہے جبکہ عوام کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دے چکی تھی۔
ایران میں منعقدہ حالیہ الیکشن کے بارے میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: "میں ایرانی قوم کا الیکشن میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ملت ایران نے الیکشن کے میدان میں حاضر ہو کر ایک سماجی اور تہذیبی ذمہ داری بھی ادا کی ہے اور جہاد بھی انجام دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں "جہاد”، کیوں؟ کیونکہ دوسری طرف دشمن کا شدید پروپیگنڈہ جاری تھا۔ ایرانی قوم کے دشمنوں، اسلامی ایران کے دشمنوں اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں نے تقریباً گذشتہ ایک سال سے دنیا کے مختلف حصوں سے ایرانی عوام کو الیکشن میں شرکت نہ کرنے پر اکسانے کی بھرپور کوشش انجام دی تھی۔ ان کا مقصد انتخابات کو غیر معتبر کرنا تھا۔ لیکن عوام نے بھرپور انداز میں الیکشن میں شرکت کی اور ووٹ دے کر دشمن کی ان کوششوں کا ناکام بنا دیا۔ انہوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ لہذا یہ ایک "جہاد” تھا۔”