تیزی سے بدلتا عالمی منظرنامہ اور دہشت گردی میں اضافہ

346246-2005459121.jpg

جیسے جیسے امریکہ، مغرب، چین اور روس نئی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں، دہشت گردی کا مسئلہ پس منظر میں جا رہا ہے لیکن دہشت گردی نہ صرف موجود ہے بلکہ پھیلی بھی ہے۔دہشت گردی اور دہشت گرد گروپ جیوپولیٹکل خلا سے وجود میں نہیں آتے بلکہ وہ سماجی، سیاسی، نسلی تضادات، شناخت، نظریاتی اور معاشی پسماندگیوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔

اس وقت دہشت گردی کی پانچویں لہر جاری ہے جو مذہبی، نسلی اور قوم پرستی کے عوامل کے گردگھومتی ہے۔دہشت گردی کی مذہبی لہر کمزور ہونے کے باوجود برقرار ہے جب کہ اس کی نسل پرستانہ لہر دائیں بازو کے گروپوں کی شکل میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ جاری دہشت گردی کس شکل میں برقرار رہتی ہے۔نئی سرد جنگ کے پس منظر میں دہشت گردی کے مستقبل کو سمجھنے کے لیے اس کے ماضی اور حال کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ماضی میں سرد جنگ کے آخری مرحلے میں امریکہ اور روس کے درمیان جغرافیائی و سیاسی کشیدگی نے دہشت گرد گروپوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کیا۔

امریکہ نے افغان مجاہدین تیار کیے اور ان کی حمایت کی جب کہ روس نے سابقہ شمالی اتحاد کی حمایت کی۔ واشنگٹن نے اسلحہ اور پیسہ دیا۔افغانستان میں پراکسی جنگ کو ’جہاد‘ کے طور پر جواز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی لٹریچر بھی فراہم کیا گیا جب کہ اسلام آباد نے نام نہاد افغان مجاہدین کو تربیت اور پناہ دی۔افغان جہاد نے مذہبی دہشت گردی کو آکسیجن فراہم کی جس کے سبب کئی جہادی گروپ وجود میں آئے اور دنیا کے مختلف حصوں بشمول جنوبی اور مشرقی ایشیا میں پھیل گئے۔افغان جہاد کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کو تین الگ الگ زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ پراکسی وار، فرقہ وارانہ عسکریت پسندی او عالمی جہادی تحریکوں کا ابھرنا۔

نائن الیون حملوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات بھی عالمی دہشت گردی میں اضافے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئے۔ افغان جہاد کے بعد اور نائن الیون سے پہلے 1990 کی دہائی میں دہشت گردی غیر معمولی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے منظر نامے میں غالب تھی۔نائن الیون کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کم ہو گئی اور جہاد عالمی اور کلاسکی کشیدگی میں عروج پر پہنچ گیا۔ جہاد کے حوالے سے عالمی تناؤ کا مقصد خود ساختہ عالمی سنی خلافت تھا۔اسی طرح جہاد کا کلاسیکی تناؤ امریکی افواج کو جزیرہ نما عرب سے نکلنے پر مجبور کرنے کی کوشش سے متعلق تھا۔ جہادی عسکریت پسندی نائن الیون کے بعد کم از کم تین پہلوؤں کی وجہ سے جہاد کے گذشتہ مراحل سے مختلف تھی۔

سب سے پہلے اگرچہ خودکش حملوں کی شکل میں دہشت گردی نائن الیون سے پہلے بھی تھی لیکن اس کے پیمانے اور تعداد میں توسیع ہوئی۔دوسرے نمبر پر جہاد کے ماضی کے مراحل کے برعکس نائن الیون کے بعد کا زمانہ اپنی ساخت، مقاصد اور اہداف میں مختلف تھا، یعنی عالمی سنی خلافت کی تشکیل۔تیسری بات یہ کہ نائن الیون کے بعد کے جہادی عسکریت پسندی کے مرحلے نے کمزور ریاستوں کو اپنے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مضبوط عالمی ریاستوں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھنے پر مجبور کیا۔

شام کی خانہ جنگی کے آغاز اور نام نہاد داعش کے عروج کے ساتھ جہاد کا کلاسکی تناؤ کم ہو گیا اور فرقہ وارانہ اور عالمی تناؤ جہادی منظر نامے پر غالب آگیا۔مزید برآں داعش نے عراق اور شام کے درمیان خود ساختہ پروٹو خلافت تشکیل دی جب کہ القاعدہ اس معاملے میں پیچھے رہ گئی۔داعش نے دنیا بھر کے مذہبی بنیاد پرستوں کو ترغیب دی کہ وہ گروپ کے ساتھ وفاداری کا عہد کریں اور عراق و شام کے درمیان اس کے زیر اثر علاقوں کا رخ کریں۔ نتیجے میں کم و بیش 53 مختلف ممالک سے تقریباً 30 ہزار غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں نے اس طرف کا رخ کیا۔

اس مرحلے کے دوران ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں مغرب پر حملوں کی نئی لہر شروع ہوئی۔ داعش نے ان حملوں کو بڑھانے کے لیے اپنے غیر ملکی دہشت گرد نیٹ ورک کا فائدہ اٹھایا۔اس کے علاوہ داعش نے مخلتف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے پروپیگنڈے اور بھرتی کے طریقہ کار کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔

پرامن ملکوں اور تنازعات سے متاثرہ ریاستوں میں کووڈ 19 کی وبا کے مختلف اثرات مرتب ہوئے۔مغرب جیسی پرامن ریاستوں میں وبائی امراض کے دوران دہشت گردی میں کمی آئی۔ اس کے برعکس دہشت گردی سے متاثرہ ریاستوں میں اس کا اثر دگنا رہا۔

اسی طرح اگست 2021 میں طالبان کا افغانستان پر قبضہ عسکریت پسند جہاد کے فروغ میں ایک اہم پیش رفت تھا۔طالبان کی فتح نے نہ صرف ایسے گروپوں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ دوسرے ہم خیال جہادی گروپوں جیسے حماس، حیات تحریر الشام اور الشباب کے لیے فتح کے آلے کے طور پر کام کیا۔تاہم طالبان کی فتح نے زیادہ تر جہادی گروپوں پر نفسیاتی اور روحانی اثرات چھوڑے، سوائے داعش اور اس کے عالمی نیٹ ورکس کے۔

چوں کہ عالمی جغرافیائی سیاست روس اور چین کے ساتھ امریکہ کے درمیان تناؤ بڑھا چکی ہے اور یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اس دور میں دہشت گردی اور دہشت گرد کیسے پروان چڑھیں گے۔اس سلسلے میں دو متضاد دلائل ہیں۔ ایک دلیل یہ کہ دہشت گردی کو ایک پراکسی ٹول کے طور پر استعمال کیا جائے گا جیسا کہ ماضی میں امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کے دوران دیکھا گیا تھا۔اس کے متضاد نقطہ نظر کے مطابق القاعدہ اور داعش جیسے گروپوں کی موجودگی امریکہ، روس اور چین کو دہشت گرد گروپوں کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کرے گی۔

درحقیقت جس طرح سے امریکہ اور روس نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور یقینی تباہی سے بچنے کے لیے ان ہتھیاروں کا استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا، اسی طرح انسداد دہشت گردی کی کوششیں ان طاقتوں کی طرف سے دہشت گرد گروپوں کو استعمال کرنے کی کوششوں کو بے اثر کرنے کے لیے جواز فراہم کر سکتی ہیں۔

 

تجزیہ نگار :- عبدالباسط خان

 

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے