قومی اسمبلی کا نسل در نسل حصہ بننے والے سیاست دان
آج حلف اٹھانے والی پاکستان کی نومنتخب قومی اسمبلی کے بطن سے نئی وفاقی حکومت نے جنم لینے جا رہی ہے۔نہ صرف آنے والی حکومت بلکہ اپوزیشن کے سیاسی ڈی این اے کو سمجھنے کے لیے ارکان کا سیاسی اور خاندانی پس منظر جاننا ضروری ہے۔خاندانی سیاست کی قدیم روایت کے تناظر میں موجودہ اسمبلی ماضی سے کتنی مختلف ہے؟بطور خاص پاکستان تحریک انصاف جو خاندانی سیاست کی سب سے بڑی نقاد ہے کے ممبران کا موروثی سیاست سے کتنا تعلق ہے ہے؟بدلتے انتخابی رویوں اور روایات سے طاقت ور سیاسی گھرانوں کی گرفت کس قدر کمزور ہوئی ہے؟ان سوالات اور مفروضات کے جواب جاننے کے لیے ہم نے انتخابی نتائج اور نومنتخب ممبران کے سیاسی اور خاندانی پس منظر کا جائزہ لیا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں خاندانی سیاست کے اثر سے آزاد نئے سیاسی کارکنوں کی تعداد دیگر حصوں سے زیادہ ہے۔
باقی تین صوبوں میں محدود تعداد میں بااثر سیاسی گھرانے انتخابی دوڑ سے باہر ہوئے ہیں۔ارکان کی اچھی خاصی تعداد کا سیاسی سرمایہ اور کامیابی کا نسخہ ووٹرز سے تعلق کے علاوہ سیاسی اور خاندانی رشتوں میں منسلک ہونا بھی ہے۔
پانچویں پشت پارلیمنٹ میں
آزادی کے بعد سے سیاسی گھرانوں کی چار نسلیں انتخابی عمل سے گزر چکی ہیں۔ اگر تقسیم سے قبل انتخابی اداروں سے وابستگی کو شامل کیا جائے تو سیاسی خاندانوں کی پانچویں پشت اب قومی اسمبلی کا حصہ بن چکی ہے۔وزیر آباد کی چٹھہ فیملی کویہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خاندان کی پانچویں نسل اس بار کسی اسمبلی کا حصہ بنی ہے۔این اے 66 سے محمد احمد چٹھہ تحریک انصاف کی حمایت سے کامیاب ہوئے ہیں۔
ان کے خاندان کی انتخابی سیاست کا سلسلہ تقسیم سے قبل پر محیط ہے۔ احمد چٹھہ سابق سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے فرزند ہیں جنہوں نے 1970 میں پہلی بار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ تین بار رکن قومی اسمبلی بننے والے حامد ناصر کے پردادا کرم الٰہی اعزازی میجسٹریٹ تھے وہ 1923 سے 1926 تک پنجاب کی مجلس قانون ساز کے ممبر رہےان کے بیٹے چوھدری نصیرالدین نے 1937 میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیتا تھا، وفات کے بعد ان کی سیاسی وراثت ان کے بیٹے کو منتقل ہوئی۔ حامد ناصر چٹھہ کے والد چوہدری صلاح الدین چٹھہ 1951 میں پنجاب اسمبلی اور 1962 میں پنجاب اسمبلی اور 1962 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
قومی اسمبلی تک پہنچنے والی چار نسلیں
خانیوال کے محمد خان ڈاہا قومی اسمبلی کے ممبر کے طور پر حلف اٹھا کر ڈاہا خاندان کی چوتھی نسل بن گئے ہیں جو قومی اسمبلی تک پہنچی ہے۔این اے 145 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے محمد خان ڈاہا نے بحیثیت رکن قومی اسمبلی اپنی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کر لی ہے۔خانیوال کے بااثر سیاسی خانوادے سے قبل ان کے والد حاجی محمد عرفان احمد خان چار بار پنجاب اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں۔ 1997 میں وہ میاں شہباز شریف کی صوبائی حکومت میں وزیر بھی رہے۔یہ خاندان انتخابی سیاست میں نمایاں عرفان ڈاہا کے چچا میجر آفتاب ڈاہا کی وجہ سے ہوا۔ وہ مسلسل پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے ایک بھائی رفعت حیات خان 1977 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن جیتے تھے۔تقسیم سے قبل میجر آفتاب ڈاہا کے دادا ہیبت خان پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے۔ اس طرح ڈاہا خاندان کی سیاست چار نسلوں تک پارلیمانی نمائندگی سے بہرہ ور ہوتی رہی ہے
الیکشن جیتنے والی تین نسلیں کون سی ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ کے علاقے ہری پور سے کامیاب ہونے والے عمر ایوب خان کو سنی اتحاد کونسل کی طرف سے وزیراعظم کے عہدے کے انتخاب کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے۔عمر ایوب خان پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے پوتے ہیں، جنہوں نے 1965 میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدارتی الیکشن جیتا تھا۔ان کے بیٹے گوہر ایوب خان نے بھی 1965 میں ممبر قومی اسمبلی کے طور پر پارلیمانی سیاست کا اغاز کیا۔ چار بار ایم این اے، سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر کے طور پر بھی وہ کابینہ کا حصہ رہے ہیں۔اس خاندان کے دیگر افراد بھی وقتاً فوقتاً قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جیتتے رہے ہیں
این اے 87 خوشاب سے مسلم لیگ ن سے وابستہ ملک شاکر بشیر اعوان مسلسل چوتھی بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیتے ہیں۔یہ خاندان پاکستانی سیاست کی اس فہرست میں بھی شامل ہے جہاں سے تین نسلوں نے یکے بعد دیگرے قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی۔ان کے دادا ملک کامران بخش اعوان 1970 اور 1977 میں خوشاب سے ایم این اے منتخب ہوئے۔شاکر بشیر اعوان کے والد ملک بشیر اعوان 1988 میں صوبائی اسمبلی کا حصہ رہے جبکہ ان کے چچا حاجی جاوید اقبال دو دفعہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے متحرک رہنما شاہنواز رانجھا کو شکست دینے والے اسامہ احمد میلہ تین پشتوں سے پارلیمانی سیاست کا حصہ بننے والے خاندان کی ایک اور مثال ہیں۔این اے 83 سرگودھا سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت سے کامیاب ہونے والے اسامہ میلہ کے دادا کے بھائی چوہدری قادر بخش میلہ 1988 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ 1990 میں بھی قومی اسمبلی کا ممبر بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔اسامہ احمد میلہ کے والد چودری غیاث احمد میلہ 1997 سے 2008 تک تین مرتبہ ایم این اے کا انتخاب جیتتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں وزیر مملکت بھی رہے، پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زوال کے بعد اس خاندان نے تحریک انصاف کا رخ کیا۔
رحیم یار خان سے پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ دو بھائی مخدوم سید مرتضٰی محمود اور مخدوم سید مصطفٰی محمود قومی اسمبلی کے ممبر بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کے دادا مخدوم زادہ حسن محمود ریاست بہاولپور کے وزیراعظم اور مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔1985 میں جب میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلٰی تھے تو حسن محمود اپوزیشن لیڈر تھے، ان کے بیٹے مخدوم احمد محمود پنجاب کے سابق گورنر اور تین بار صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ یوں یہ خاندان بھی تین نسلوں سے پارلیمانی سیاست کا حامل چلا ا رہا ہے۔
سیالکوٹ سے رکن قومی اسمبلی زاہد حامد مسلسل دوسری بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔
ان کا خاندان پارلیمانی سیاست کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔ ان کے دادا حامد نواز خان 1977 اور 1988 میں ایم این اے بنے تھے۔علی زاہد کے والد سابق وزیر قانون زاہد حامد تین بار قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ ان کی زندگی میں ہی اس خاندان کی تیسری نسل قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
این اے 93 چینیوٹ سے پی ٹی آئی کے غلام محمد لالی اگرچہ اس بار دوسری دفعہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ہیں مگر ان کے خاندان کی انتخابی تاریخ پارلیمانی کامیابیوں سے بھری ہے۔ان کے دادا محسن لالی مغربی پاکستان کی اسمبلی کے منتخب رکن تھے جبکہ ان کے چچا دوست محمد لالی 1970 میں پہلی بار ایم پی اے بنے، بعد میں وہ صوبائی وزیر بھی رہے۔
لسبیلہ بلوچستان کا جام خاندان بھی تین نسلوں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا حصہ بنتا رہا ہے۔ این اے 252 سے ایم این اے بننے والے جام کمال کے والے جام میر یوسف 2002 میں بلوچستان کے وزیراعلی تھے۔
اس سے قبل وہ دو بار ممبر قومی اسمبلی اور دو بار صوبائی وزیر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔
جام کمال کے دادا جام میر غلام قادر 1970 اور 1985 میں بلوچستان کے وزیراعلی رہے۔
سید یوسف رضا گیلانی اور چوہدری شجاعت حسین پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں۔ ان دونوں کے خاندان بھی تین نسلوں تک ممبر قومی اسمبلی بننے کا اعزاز رکھتے ہیں۔یوسف رضا گیلانی کے والد علمدار حسین گیلانی مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر اور وزیر رہے۔ ان کے دو بیٹے حالیہ الیکشن میں ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔
1962 میں قومی اسمبلی کا حصہ رہنے والے چوہدری ظہور الہی کے پوتے چوہدری سالک حسین این اے 64 گجرات سے قومی اسمبلی کا حصہ بننے سے اس خاندان کی تیسری نسل قومی اسمبلی پہنچنے پہنچ گئی ہے۔
باپ بیٹا ممبر قومی اسمبلی
موجودہ قومی اسمبلی میں خاطرخواہ تعداد ایسے ممبران کی ہے جن کے والد ماضی میں اسی ایوان کا حصہ رہ چکے ہیں۔ہماری سیاسی روایات میں بیٹا عموماً اپنے والد کی سیاسی جماعت کی حمایت سے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھتا ہے، مگر اس اسمبلی میں بہت سے ایسے ارکان بھی ہیں جنہوں نے اپنے والد کی سیاسی جماعت ہٹ کر اپنی سیاسی راہ خود متعین کی اور پارلیمنٹ کا حصہ بننے میں کامیابی حاصل کی
جہلم سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے چوہدری فرخ الطاف کے والد پیپلز پارٹی کی طرف سے رکن قومی اسمبلی رہے تھے۔این اے 81 گوجرانوالہ سے بلال اعجاز تحریک انصاف کی حمایت سے قومی اسمبلی کا حصہ بنے ہیں۔ اس سے قبل ان کے والد چوہدری اعجاز احمد چار بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں، ان کا تعلق مختلف اوقات میں مختلف جماعتوں سے رہا۔ایبٹ اباد کے اقبال جدون صوبہ کے سابق وزیراعلی بھی رہے۔ ان کے بھائی امان اللہ خان جدون تین بار ایم این اے اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ ان کے بیٹے علی خان جدون اب پی ٹی ائی کی طرف سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔این اے 116 شیخوپورہ سے خرم منور منج نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی، ان کے والد نے 1993 میں قومی اسمبلی کی رکنیت کا معرکہ سر کیا تھا۔
فیصل آباد سے تحریک انصاف کے سعد اللہ بلوچ پہلی بار ایم این اے بنے ہیں۔ ان کے والد ناصر خان بلوچ عبوری عرصے کے لیے وفاقی وزیر تعلیم رہ چکے ہیں۔فیصل آباد سے ہی ایک اور پرانے مسلم لیگی رہنما اور ممبر قومی اسمبلی زاہد سرفراز کے بیٹے علی سرفراز نے پی ٹی آئی کی حمایت سے قومی اسمبلی کے نشست حاصل کی ہے۔
خاندانی اثر و رسوخ سے انتخابی کامیابی
این اے 110 جھنگ سے صاحبزادہ امیر سلطان کی یہ مسلسل دوسری انتخابی کامیابی ہے۔ ان کے والد صاحبزادہ نذیر سلطان چار بار ممبر قومی اسمبلی رہے ہیں۔ اپنے والد کے برعکس امیر سلطان نے تحریک انصاف کو ترجیح دی۔
مظفر گڑھ سے پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے عامر طلال گوپنگ نے اس بار مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی نشست حاصل کی ہے، ساتھ ہی ان کا خاندانی اثرورسوخ ان کی کامیابی میں معاون ثابت ہوا۔ ان کے والد عاشق گوپنگ چار بار ایم این اے رہ چکے ہیں۔
لودھراں سے عبدالرحمان کانجو ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں رکن قومی اسمبلی بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں ان کا خاندان برسوں سے پارلیمانی سیاست کا حصہ رہا ہے۔ ان کے والد صدیق کانجو تین بار ایم این اے بنے اور وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
صوبہ سندھ کے علاقے سانگھڑ سے شازیہ مری، وہاڑی سے عائشہ نذیر جٹ اور ڈسکہ سے سیدہ نوشین افتخار براہ راست الیکشن کے ذریعے قومی اسمبلی میں پہنچنے والی خواتین ہیں۔ ان تینوں کی قدر مشترک ان کے والد کا مختلف ادوار میں قومی اسمبلی کا ممبر رہنا ہے۔
اصغر خان کسی دور میں پاکستانی سیاست میں مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں پر ہوتے تھے، مگر وہ پارلیمانی سیاست میں کامیابی حاصل نہ کر سکے سوائے 1977 کے، جب وہ کراچی سے الیکشن جیتے تھے۔ اس کے سوا وہ کبھی بھی قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بن سکے۔پچھلے الیکشن میں ان کے آبائی علاقے ایبٹ اباد سے ان کے بیٹے علی اصغر خان تحریک انصاف کی مدد سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
پاکستانی سیاست اور سیاسی کلچر میں بہت سے حوالوں سے تبدیلیاں آئی ہیں۔ غیرمتوقع نتائج اور پرانے سیاسی اطوار کے غیر اہم ہونے سے انتخابی سیاست کا ڈھانچہ بھی کچھ تبدیل ہوا ہے، مگر موروثی سیاست میں اگر تبدیلی آئی ہے تو بس اتنی کہ سیاسی گھرانوں کی نئی نسل نے اپنی ترجیح، پسند اور انتخابی کامیابی کے لیے اپنے والدین کی پارٹی کے بجائے نئی جماعتوں کا انتخاب کیا ہے