غزہ: فائر بندی میں تاخیر قحط زدہ فلسطینیوں کے لیے جان لیوا
غزہ کی تنگ پٹی کے جنوبی شہر رفح میں انسانی امدادی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ خیموں میں رہنے والے فلسطینی خاندانوں کے لیے ایک کلو آٹے کے تھیلے (اگر آپ کو مل جائے) کی قیمت اب تقریباً 40 پاؤنڈ (14 ہزار پاکستانی روپے سے زیادہ) ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کی زندگیاں ہزاروں میل دور پیرس میں جنگ بندی پر مذاکرات کرنے والوں کے ہاتھ میں ہیں۔
مصر کی سرحد سے متصل اس پرہجوم شہر کے زیادہ تر لوگ پہلے ہی اسرائیل کی طرف سے غزہ میں ہونے والی شدید جارحیت اور خوف ناک تباہی کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہزاروں خاندان سڑکوں، سکول اور ہسپتال کے صحن میں یا چوراہوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی تہہ خانے نہیں، صرف چند تباہ شدہ دیواریں ہیں۔ بھاگنے اور وحشیانہ بمباری سے چھپنے کو کوئی جگہ نہیں ہے۔
اسرائیل نے رفح میں زمینی حملے کا عندیہ دیا ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ لوگ چند مربع کلومیٹر میں محصور ہیں اور اسرائیل اسے سات اکتوبر کی کارروائی میں ملوث حماس کے آخری مضبوط گڑھ کے طور پر دیکھتا ہے۔اقوام متحدہ خبردار کر چکا ہے کہ قصبے میں کوئی بھی حملہ قتل عام ہو گا۔
غزہ کے شمال میں، جس کا زیادہ تر حصہ پہلے ہی اسرائیلی پیش قدمی سے زمین بوس ہو چکا ہے، جس کے بارے میں عالمی تنظیم آکسفیم نے منگل کو کہا کہ یہاں نسل کشی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور تقریباً تین لاکھ افراد اب بھی یہاں چار ماہ سے امداد سے تقریباً مکمل طور پر منقطع ہونے کے باوجود مقیم ہیں۔
غزہ شہر میں لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہیں اور جانوروں کی خوراک سے روٹی بنا رہے ہیں۔آکسفیم نے کہا کہ وہاں اب ’تباہ کن بھوک‘ ہے، لوگ بیت الخلا کا پانی پیتے ہیں اور جنگلی پودے کھاتے ہیں۔رفح میں رہنے والے چار بچوں کے والد احمد نے مجھے بھیجے گئے وائس نوٹ میں کہا کہ ان کے پاس شمال میں بھوک سے نڈھال ایک نوجوان لڑکے کی ویڈیو ہے جو اس وقت اپنی جیبوں میں ریت اور آٹا بھر رہا ہے، جب اسرائیلی فوجی بحیرہ روم کے ساحل کے قریب امدادی سامان میں موجود بوریوں پر گولیاں برسا رہے تھے۔
شمالی غزہ میں مایوس لوگ یہاں پہنچنے والے امدادی سپلائی ٹرکوں کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ امدادی کارکنوں نے یہاں کے جو مناظر مجھے بتائے ہیں وہ غیر حقیقی لگتے ہیں۔فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی چار ماہ سے جاری بمباری میں تقریباً 30 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں جب کہ بھوک ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی جان لے سکتی ہے۔آکسفیم نے کہا کہ امداد، سکیورٹی اور علاقوں تک رسائی میں پیش رفت کے بغیر یہاں ایک تباہ کن قحط منتظر ہے۔
اور اس طرح پوری پٹی سے خاندان مجھے ہر روز بتاتے ہیں کہ وہ بس دعا کر سکتے ہیں کہ فائر بندی ہو جائے۔ دعا کریں کہ عالمی برادری قیدیوں کی رہائی کے بدلے فائر بندی معاہدے کو انجام دینے کے لیے تمام فریقوں پر نمایاں دباؤ ڈالے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ابھی بہت سے جعلی دعوؤں کے بعد امید کی کرن موجود ہے کہ ایک ہفتے کے اندر عارضی فائر بندی کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ہفتے پیر کو کہا کہ اسرائیل آئندہ ماہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران اپنی جنگ روکنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے، اگر حماس کے حملے کے نتیجے میں قیدی بنائے گئے کچھ اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ طے پا جائے۔صدر بائیڈن نے یہاں تک کہ چار مارچ تک ایک ممکنہ معاہدے کے بارے میں بھی بات کی۔انہوں نے کہا: ’میرے قومی سلامتی کے مشیر نے مجھے بتایا کہ وہ (معاہدے کے) قریب ہیں۔ اگرچہ ابھی تک حتمی نہیں ہوئے ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ اگلے پیر تک ایسا ہو جائے گا۔برطانیہ بھی اس امید میں شامل ہو گیا ہے۔ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ نے منگل کو کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ ’قابل عمل‘ ہے۔
لیکن اسرائیل، حماس اور قطری مذاکرات کار جنہیں تفصیلات طے کرنے کا کام سونپا گیا ہے، وہ زیادہ محتاط نظر آتے ہیں۔حماس کے عہدیداروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ابھی بھی بڑی خلیج کو پار کرنا باقی ہے۔دوسری جانب اسرائیل کے حکومتی ترجمان نے کہا کہ اگر کسی چیز سے گزرنا ہے تو حماس کو اپنے ’غیر حقیقی مطالبات‘ کو ترک کرنا پڑے گا۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر ماجد الانصاری نے کہا کہ دوحہ پُرامید ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ امیدیں پوری ہوں کیونکہ اب بھی بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر ان کے درمیان اتفاق نہیں ہوا۔ابھی تک وہ 40 دنوں تک لڑائی میں معطلی پر بحث کر رہے ہیں تاکہ حماس کے ہاتھوں پکڑے گئے بقیہ 136 قیدیوں میں سے کچھ کو رہا کر دیا جائے۔ اس کے بدلے اسرائیل اپنی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کو رہا کرے گا جن میں سے زیادہ تر کو بغیر کسی الزام کے قید میں رکھا گیا ہے، غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کو بڑھایا جائے گا اور اسرائیلی فوجی غزہ کے گنجان آبادی والے علاقوں سے نکل جائیں گے۔یہ حماس کے غیر معینہ جنگ بندی اور تمام اسرائیلی افواج کے انخلا کے ابتدائی مطالبات سے کم ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو با رہا کہہ چکے ہیں کہ وہ صرف اپنے رفح حملے میں تاخیر کریں گے، اسے منسوخ نہیں کریں گے۔
غزہ کے خاندانوں کے لیے یہ تاخیر جان لیوا ہے۔منگل کو مجھے بھیجے گئے وائس نوٹ میں احمد نے کہا کہ اگر دنیا کی حکومتیں، عالمی امدادی ادارے اور اقوام متحدہ بھی غزہ کے خاندانوں کو مناسب خوراک حاصل کرنے میں مدد نہیں کر سکتے تو وہ اپنی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ان کے بقول: ’میرا دل ٹوٹ گیا ہے اور میں خود کو بے بس محسوس کر رہا ہوں کیوں کہ ہم بالکل کچھ نہیں کر سکتے۔‘انہوں نے مایوسی کے ساتھ یہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ وہ کس طرح پانچ بزرگ خواتین کے لیے آٹا تلاش کرنے میں ناکام رہے، جو مایوس تھیں۔کاش، کاش میرے پیاروں، میرے دوستوں کی مدد کرنے کا کوئی طریقہ ہوتا۔
کالم نگار :- بیل ٹریو