یہ ’ضمیر‘ کون ہے؟ عاصمہ شیرازی کا کالم
ضمیر بھی عجب چیز ہے۔ کسی خاص سسٹم کے تحت جاگتا ہے اور اشارہ نہ ہو تو سویا رہتا ہے۔ اعلیٰ شخصیات، حکام اور افسران کا ضمیر حالات اور اوقات مخصوصہ کے تحت کام کرتا ہے۔ یہاں ضمیر ذاتی جبلت، انفرادی مفاد اور مقتدر صفات کے ماتحت ہے، لہٰذا یہ عام حالات میں نہیں جاگتا۔ہر انتخابات کے بعد چند ضمیر ضرور جاگ اُٹھتے ہیں جو سسٹم سے اور سسٹم اُن سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے بعد چند ’ابدی‘ فائدوں کی خاطر جاگ کر انقلاب برپا کر دیتے ہیں۔
مثلاً سنہ 2002 کے انتخابات کے بعد ایک ’ضمیر‘ حرکت میں آیا اور اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے جنرل مشرف کے احکامات پر کئی ’ضمیروں‘ کی ایک فصل تیار کر دی جس نے جناب جمالی صاحب کی حکومت کو محض ایک ووٹ سے توانائی عطا کی اور یوں ’پیٹریاٹ گروپ‘ کی صورت کئی ضمیر جاگے۔ ضمیر جاگنے کے اِس عمل میں کبھی حاضر سروس تو کبھی ریٹائرڈ افسر اپنا اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
سنہ 2013 کے انتخابات کو عمران خان نے ’آر او کا الیکشن‘ قرار دیا تھا۔ چونکہ تحریک انصاف اُن انتخابات میں ہار گئی لہٰذا وہ پاکستان کے متنازع ترین انتخابات قرار پائے اور 35 پنکچر کے بیانیے کے ساتھ ایک اور سسٹم حرکت میں آیا اور دو متوازی ضمیر ایک وقت میں کام کرنے لگے۔
سنہ 2018 میں قبل از اور بعد از انتخابات دھاندلیاں ’آر ٹی ایس بیٹھ جانے‘ کے باوجود یوں درست قرار پائیں کہ اُن انتخابات میں جیتنے والی جماعت تحریک انصاف تھی۔ جس طرح 2002 کے انتخابات میں ’ضمیر‘ جگا کر حکومت بنائی گئی بالکل اُسی طرح 2018 کے انتخابات میں ایک الیکشن کمشنر کا ضمیر جاگا اور بعد میں وہی ضمیر پارلیمنٹ کے باہر دھرنوں میں شمولیت اختیار کرنے لگا۔
سنہ 2024 کے انتخابات میں بھی مبینہ دھاندلی کے الزامات ’سنگین ترین‘ ہیں۔ صفت کی تیسری ڈگری کا یہاں استعمال کرنا یوں ضروری ہے کہ کہیں مبادا اِن انتخابات کو شفاف تصور نہ کر لیا جائے۔ ابھی حال ہی میں ایک سول افسر کا ’ضمیر‘ انتخابات سے دس دن بعد جاگ اُٹھا ہے اور حالیہ انتخابات کی صحت کو متنازع بنا رہا ہے۔
خیر ضمیر کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے اگر ابدی نیند نہ سو گیا ہو اور جگانے کے لیے نہ تو اقبال کی نظموں کی ضرورت ہے اور نہ ہی فیض صاحب کے انقلابی کلام کی۔ البتہ ’فیض یاب ضمیروں‘ کی کسی طور کمی نہیں ہے۔ ضمیر جگانے کے لیے مخصوص حالات اور احکامات کی ضرورت ہے، کبھی سسٹم بنانے کے لیے اور کبھی سسٹم گرانے کے لیے۔ضمیر جاگنے کے اس موسم میں اچانک سندھ کی ریاست پسند قوتیں بھی سڑکوں پر آ نکلی ہیں۔ انتخابات کے دوران طاقت کے مظاہرے سے احتراز برتنے والی قوتیں متحدہ طاقت کا مظاہرہ کرنے لگیں تو ’ضمیر‘ نے پھر سیٹی ماری۔ یوں لگا کہ یہ ضمیر سسٹم کو ڈی ریل کرنے کے لیے میدان میں اُتر آیا ہے۔ دل کو اطمینان ہوا کہ چلیں انتخابات کے بعد ہی سہی مگر یہ ’ضمیر‘ بھی جاگا تو۔۔۔
ہمیشہ سسٹم کے ساتھ لبیک کہنے والے ’ضمیر‘ جب خلافِ ضمیر بولیں تو شک ضرور ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ضمیر ہے جو مسلسل حرکت میں ہے۔اسی طرح کا ایک ضمیر عدم اعتماد کے دور میں چوہدری پرویز الہٰی کی بنی گالہ ملاقات کے دوران ایک فون کی صورت بھی جاگا تھا جس نے چوہدری صاحب کو آخری وقت میں ’درست قدم‘ اُٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج چوہدری صاحب جیل میں قید و بند کی صعوبتیں اُٹھا رہے ہیں اور جگانے والا ’ضمیر‘ کہیں دور چین کی نیند سو رہا ہے۔
سسٹم میں اگر دو ضمیر ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوں تو یوں سمجھیے کہ ایک جسم میں دو دل بیک وقت شریانوں میں بہتے لہو کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اب یہ شریانوں کی مرضی ہے کہ وہ ’حاضر‘ دل کی بات سُنیں یا ’غائب‘ کی۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کا شکار جسم ہوتا ہے جو کھینچا تانی میں مشکل سے دوچار ہے۔ سسٹم کی یہ کشکمش ختم ہو تو وطن عزیز سکون میں آئے۔