مظلوم پشتونوں کی آواز‘ سمجھی جانے والی پشتون تحفظ موومنٹ تقسیم کیسے ہوئی اور اب کہاں ہے؟

323c0bc0-c439-11ee-ace0-c35c1b4f6d82.jpg

پشتون تحفظ موومنٹ کہاں گئی؟

یہ سوال حالیہ دنوں میں اس وقت پوچھا گیا جب بلوچستان کی ماہ رنگ بلوچ کی جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نکالی گئی احتجاجی ریلیاں منظرِعام پر آنا شروع ہوئیں اور اِن ریلیوں کے نتیجے میں انھیں مبینہ طور پر دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں۔زیادہ تر ماہرین کو ان ریلیوں میں بھی وہی عنصر نظر آیا جو کہ آج سے چھ سال پہلے منظور پشتین کی آواز پر نکلنے والی ریلیوں میں تھا۔

پشتونوں کو بظاہر متحد کرنے والی تحریک اس وقت شدید تقسیم کا شکار ہے جس کے نتیجے میں آنے والے الیکشن میں اسی تحریک سے ابھرنے والے کئی افراد اور تنظیمیں بطور سیاسی جماعت اور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔واضح رہے کہ منظور پشتین اس وقت حراست میں ہیں اور ان کے بارے میں مزید معلومات ان کی تحریک کے کسی شخص کے پاس نہیں ہیں۔

صحافی لحاظ علی نے اس بارے میں کہا کہ ’اس وقت ملک کے سرحدی علاقوں میں بے چینی ہے اور پی ٹی ایم کے طرز پر بنی کئی احتجاجی تحریکیں سامنے آ رہی ہیں۔‘ماہ رنگ کو ’بلوچوں کی منظور پشتین‘ کہتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس وقت پی ٹی ایم خود شدید تقسیم کا شکار ہے۔‘

پی ٹی ایم تقسیم کیوں ہوئی؟

پی ٹی ایم کے سابق اور موجودہ کارکنان بتاتے ہیں کہ انھیں تقسیم کا خوف اس تحریک کے آغاز سے ہی تھا۔صحافی لحاظ علی نے کہا کہ ’پی ٹی ایم کی شکل میں پشتونوں کو تین بڑے نام ملے۔ منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر۔ ایک تحریک کی آواز بنا، ایک دماغ اور تیسرا جذبات۔تاہم اسی دوران تحریک میں دو واضح دھڑے بن گئے جو پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست کرنے کی حمایت اور مخالفت پر بنے۔ایک دھڑے نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان نے انھیں سات دہائیوں میں کیا دیا ہے جو وہ اس کا حصہ بنیں۔ جبکہ دوسرا دھڑا پارلیمان میں مزاحمتی سیاست کرنے پر زور دیتے ہوئے تحریک سے علیحدہ ہو گیا۔اس کی شروعات تب ہوئی جب 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی ایم کے دو سرگرم ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر کو الیکشن میں حصہ لینے کے نتیجہ میں تحریک کی کور کمیٹی سے الگ کر دیا گیا۔

فروری 2019 اپنے انٹرویو کے دوران منظور پشتین نے کہا تھا کہ ’جو پارلیمانی سیاست کرنا چاہتا ہے وہ بیشک کرے لیکن پھر خود کو ہماری تحریک کا حصہ نہ سمجھے۔انھوں نے کہا تھا کہ ’ہمارے کارکنان بٹ نہ جائیں اس لیے ہم نے پارلیمانی سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے نتیجے میں منظور پشتین اور محسن داوڑ کے درمیان اختلافات سامنے آ گئے۔ تاہم جماعت کے سابق اراکین کے مطابق ریلیوں میں جب محسن کی کمی کو محسوس کیا جانے لگا تو وہ اور علی وزیر اظہارِ یکجہتی کے لیے ان میں شامل ہوتے رہے۔

ماضی میں پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’تحریک ماند پڑنے کی ایک بڑی وجہ پشتین اور داوڑ کے بیچ کے نظریاتی اختلافات کے ساتھ ساتھ پشتین کی ’میں‘ بھی بنی۔سابق کارکن نے کہا کہ ’سب سے بڑی غلطی منظور نے اسلام آباد کے بنی گالا میں آفس بنا کر کی۔ اس کے نتیجے میں وہ پشتون علاقوں اور پشتونوں سے دور ہو گیا۔‘

جبکہ پشاور میں مقیم ایک اور سابق رکن نے کہا کہ ’یہاں (یعنی پشاور میں) آفس بنانا سمجھ آتا ہے۔ ہم نے اس بات کی تجویز بھی دی کہ آپ پشاور، بنوں یا ڈی آئی خان میں آ جائیں لیکن ایک نظریاتی یا قوم پرست تحریک کے سربراہ کا اسلام آباد میں بیٹھنا سمجھ سے باہر ہے۔پی ٹی ایم کے سابق رکن نے کہا کہ ’مشران نے انھیں سمجھایا کہ آپ کو لوگ آپ کی سادگی اور عوامی بیانیے کی وجہ سے پسند کرتے ہیں لیکن پھر تحریک میں ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا جو فوج کے حامی تھے اور تحریک کی بنیاد فوج کے جبر کے خلاف ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک اور وجہ پارٹی کے سربراہ کو سیلیکٹ کرنے پر بنی۔ کئی سینئیر لوگوں نے جن میں سیّد عالم صیب بھی شامل تھے، پشتین کو مشورہ دیا کہ آپ خود سربراہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ہر ماہ بعد پی ٹی ایم کی مشاورت سے سربراہ منتخب کریں۔ منظور نے ایسا نہیں کیا۔‘نتیجتاً پی ٹی ایم کے سابق اراکین ایک ایک کر کے تحریک سے ناصرف علیحدہ ہوئے بلکہ اپنے اپنے طور پر خود کو سیاسی طور پر مصروف کرتے گئے۔

پی ٹی ایم کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر مشتاق نے ان دعوؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک بنتی ہی مختلف نظریات کی بنیاد پر ہے۔ ضروری نہیں کہ جو تجویز تحریک سے جڑے باقی لوگ دیں وہ صحیح ہو۔منظور پشتین اور محسن داوڑ کے درمیان اختلافات کے بارے میں ہم نے محسن داوڑ سے بھی سوال کیا تاہم انھوں نے اس بارے میں بات کرنے سے گریز کیا۔

’تحریک سیاسی نہیں ہو سکی

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’وہ (یعنی 2018) ایک ایسا دور تھا جب پشتون تحریک اپنے زور پر تھی اور میرے خیال میں اس تحریک کی ساخت اسی وقت ترتیب دے دینی چاہیے تھی جو کہ نہیں ہو سکا۔اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یعنی سماجی تحریک آگے جا کر ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہو جانی چاہیے تھی۔‘پی ٹی ایم کے پشاور میں موجود کوآرڈینیٹر ڈاکٹر مشتاق سے جب اس بارے میں فون پر سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’ہماری تحریک سیاسی نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی بننے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جہاں تک پشتین کی بات ہے تو وہ جانتا ہے وہ کیا کر رہا ہے۔ہماری تحریک کا کوئی بندہ آنے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا ہے اور جو حصہ لے رہا ہے وہ ہماری تحریک سے نہیں ہے۔پی ٹی ایم کے سابق ارکان بتاتے ہیں جب عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان نے باقاعدہ اور مبینہ طور پر ’پی ٹی ایم کے خلاف جلسے کیے تب جا کر منظور بنی گالہ سے نکل کر ایمل ولی خان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔‘

میں جہاں بھی رہوں میرا مقصد ایک ہی ہے

سابق ایم این اے اور پی ٹی ایم کے سابق رکن محسن داوڑ نے کہا کہ ’نظریاتی اختلافات اپنی جگہ ہمارا، بلکہ ہم سب کا، مقصد ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے اپنے خطے کو پُر امن دیکھنا اور ڈی ملٹرائزیشن کی بات کرنا۔ اب وہ میں پی ٹی ایم کے ذریعے کروں یا پھر اپنے پلیٹ فارم کے ذریعے وہ میں کرتا رہوں گا۔ستمبر 2021 میں محسن داوڑ نے پشاور میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے مطابق ان کی ’جماعت کا مقصد ملک میں سیکولر، وفاقی اور جمہوری نظام کا فروغ ہو گا۔اس جماعت میں کئی نظریاتی سیاستدانوں کو شامل کیا گیا۔ پارٹی کے بارے میں محسن نے کہا کہ ’میرا مقصد اس وقت یہی ہے کہ میں کسی بھی طرح سیاست کا حصہ رہوں۔ کیونکہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے میں کراچی سے کابل تک کے پشتونوں کے لیے آواز بلند کر سکوں گا۔‘

اس سال الیکشن میں لاپتہ افراد کے لیے پی ٹی ایم کے سابق سرگرم کارکن عالم زیب محسود بھی حصہ لے رہے ہیں۔جبکہ علی وزیر نے ڈی آئی خان اور جنوبی وزیرستان میں اپنی مہم کا باقاعدہ طور پر آغاز کر دیا ہے۔جہاں تک اختلافات کی بات ہے تو انھوں نے کہا کہ ’یہ تو تقسیمِ ہند کے دوران بھی سامنے آئے تھے۔‘افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’دیکھیں تحریک میں اختلاف ہونے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اختلاف کرنے والا گروپ غلط یا برا ہے۔ ہم سب کو یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ہے۔

’اسی کو اگر بنیاد بنائیں تو پی ٹی ایم کے نتیجے میں ایک منظم سیاسی تحریک جنم لے سکتی ہے۔‘

سنہ 2018 میں جب منظور پشتین نے کراچی کے سپر ہائی وے پر نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف احتجاجی ریلی کا اعلان کیا تھا تو بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کے لیے بیٹھنے تک کی جگہ نہیں تھی۔بہت سے لوگ مٹّی پر بیٹھ گئے اور جب تک پشتین کی تقریر جاری رہی اسے سنتے رہے۔ ’نر پشتین‘ کا نعرہ بھی انھی دنوں بلند کیا گیا تھا۔اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدّت پسند تنظیم داعش اور لشکرِ جھنگوی سے تھا۔نقیب اللہ کے والد اور اہلخانہ نے اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ کا کسی شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں تھا اور اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے بھی پولیس کے اس دعوے کو مسترد کیا تھا۔لیکن نقیب اللہ کے قتل کے نتیجے میں پشتون تحفظ موومنٹ ابھری جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے کراچی سے لے کر کابل تک مظلوم پشتونوں کو یک آواز کر دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے