نئی اننگز مگر پرانا کھیل؟ عاصمہ شیرازی کا کالم
میدان سج چُکا ہے، کھلاڑی کھیلنے کو تیار ہیں، کوئی ایک پلیئر ہمیشہ کی طرح میدان سے باہر ہے۔ امپائر کریز پر موجود جبکہ سیٹی بج چُکی ہے۔ الٹی گنتی کے ساتھ حتمی مرحلے کا کھیل شروع ہو رہا ہے۔امپائر نے کھیل سے پہلے پرانے اور کچھ نئے رولز آف دا گیم بھی سیٹ کر دیے ہیں۔ کھلاڑی سب دیکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ جو کھیل امپائر نے شروع کیا ہے وہی ختم کرے تاکہ نئی اننگز کا آغاز ہو سکے۔اب نئی اننگز کے لیے وہی پرانا کھیل کون جیتے گا اصل مقابلہ یہ ہے۔آگ کے ہالے میں کھیلے جانے والے کھیل کے تقاضے کچھ اور ہیں اور ضروریات کچھ اور۔۔۔ بہرحال اس آگ سے گُزرنا ہو گا اور شرط یہ ہے کہ دامن بھی بچایا جائے اور کھیل بھی۔۔۔ اب دیکھیں کس کے ہاتھ کیا لگتا ہے۔
بلوچستان میں ڈاکٹر ماہ رنگ کی واپسی، استقبال اور جذبات نے حدت بڑھا دی ہے تو گلگت بلتستان میں اپنے آئینی حقوق کے لیے مسلسل احتجاج نے شدت اختیار کر لی ہے۔ بر وقت خبر لی ہوتی، تدارک کیا ہوتا اور معاملات کی نزاکت کو سمجھا جاتا تو یہ فالٹ لائنز عین انتخابات کے وقت متحرک نہ ہوتیں۔خیبر پختونخوا میں ایک نئی طرز کی جنگ ہے جس کا نشانہ فرنٹ لائن کے محافظ ہیں جبکہ سرحد پار سے جنوبی پنجاب کے مزدوروں کا قتل عام حالات کی سنگینی بتا رہا ہے۔گزشتہ کئی ہفتوں سے اس طرف اشارہ ہے کہ خدانخواستہ کوئی ایک لمحہ بلیک سوان (black swan) نہ بن جائے۔
انتخابات میں ہر طرف سے اُٹھنی والی آوازیں افراتفری کو جنم دے سکتی ہیں تاہم اس صورتحال میں سیاسی جماعتیں آواز بن جائیں تو اظہار کی تشنگی کم ہو جاتی ہے”ایک ساتھ اُبھرنے والی کئی آوازوں کو رہنما آواز اور الفاظ کا پہناوا دے دیں تو احتجاج کم ہو جاتا ہے۔ میڈیا، سیاسی جماعتیں اور رہنما، شور کو منشور، پروگرام اور بیانیہ بنا کر غم اور غصے کا بدل بن جائیں تو مداوا ہو۔ان انتخابات سے قبل ایک خدشہ بہرحال تھا کہ تحریک انصاف کی عدم موجودگی اور پی ڈی ایم پلس پیپلز پارٹی کے ایک صفحے پر ہونے سے خلا رہ جائے گا۔
پنجاب میں نون لیگ کی مہم کی تاخیر اور تحریک انصاف کے عدم موجودگی نے تحریک لبیک کو کسی حد تک جگہ دی ہے جو گزشتہ کچھ ماہ میں وسطی پنجاب میں خاص طور مشروم کی طرح پنپ چُکی ہے۔دائیں ہاتھ کی سیاست کی عدم موجودگی نے بہرحال وسطی پنجاب میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے جسے ن لیگ بروقت بھانپ نہیں سکی۔دوسری جانب تحریک انصاف کی عدم موجودگی اور ن لیگ مخالف ووٹر کو پیپلز پارٹی نے انگیج کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ سیاست کا رُخ ’نواز مخالف‘ بنا کر تحریک انصاف کی جگہ کسی حد تک پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔
بلاول بھٹو نے نواز مخالف انتخابی مہم کے ساتھ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں نہ صرف واپسی کی بنیاد رکھی بلکہ ایک مزاحمانہ ماحول بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ البتہ اُن کا لہجہ بعض اوقات ناقابل قبول حد تک تلخ ہو جاتا ہے جو نامناسب ہے۔بلاول بھٹو نے گُزشتہ دو ماہ میں محنت کی اور سیاست کو روایتی دو جماعتوں تک واپس لے آئے ہیں۔ یہ حکمت عملی ہے تو موثر اور اگر یہ غیر ارادی طور پر ہے تو پنجاب میں اس کا نتیجہ گزشتہ انتخابات کی نسبت بہتر نکل سکتا ہے۔
نون لیگ کی سیاست میں مریم نواز سینٹر سٹیج پر آ گئی ہیں اور نواز شریف صاحب کے بعد مائیک اُن کے ہاتھ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ن لیگ میں اُن کی مرکزی حیثیت تسلیم ہو چکی ہے۔یہ حیثیت انتخابات کے بعد اُن کی اہم عہدے کے لیے نامزدگی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت بظاہر جوانوں کے پاس بھی ایک حکمت عملی کا ہی حصہ ہے۔ ہدف ملک کی نوجوان آبادی ہے تاہم اس کے لیے بلاول، آصفہ بھٹو اور مریم نواز کو زیادہ سے زیادہ نوجوانوں میں اُترنا ہو گا اور انہیں اُمید دلانا ہو گی۔ یقین مانیے نوجوان بزرگوں سے کہیں آگے ہیں البتہ اُنہیں روایتی سیاست کو خیر باد کہنا ہوگا۔
نون مخالف جذبات کی طرح ’سیاسی آزاد‘ بھی انتخابات کے بعد سیاسی مستقبل بچانے کے لیے پسندیدہ جماعت چُننے میں ’آزاد‘ ہوں گے۔ یہ جماعتیں ان نمائندوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر تحریک انصاف کی اسمبلیوں میں نمائندگی کو مزید محدود کرنے کی کوشش کریں گی۔اب اس حکمت عملی میں بظاہر کوئی رکاوٹ تو نظر نہیں آتی تاہم ایسا کرنے میں جلد بازی سے احتراز برتنا ہی سمجھداری ہو گا۔
عمران خان کے بظاہر جیل سے نکلنے کے امکانات تو معدوم ہیں البتہ سیاسی جماعتیں نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی بات چیت اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کر سکتی ہیں۔ مذاکرات کے لیے نظر انتخاب عمران خان ہوں گے یا ان کی جگہ کوئی اور یہ فیصلہ سیاسی قیادت کے ہاتھ کس حد تک ہو گا آنے والے دنوں میں اس کا اندازہ ہو جائے گا۔