مطالبات تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کو دھرنا ختم کر کے اسلام آباد سے واپس بلوچستان کیوں آنا پڑا؟
’لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ سمیت جو دیگر مطالبات ہم لے کر گئے تھے وہ اسلام آباد نے تسلیم تو نہیں کیے لیکن ہم نے وہاں دھرنے کے ذریعے بہت سارے مقاصد اور کامیابیاں حاصل کیں اس لیے ہم وہاں دھرنا ختم کر کے واپس اپنے لوگوں کے پاس آ گئے تاکہ ہم انھیں ان مظالم کے خلاف منظّم کریں جو ریاستی ادارے ان پر ڈھا رہے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جو اسلام آباد سے اپنے مطالبات کے حوالے سے تو خالی ہاتھ لوٹیں لیکن جب وہ اور لانگ مارچ کے دیگر شرکا کوئٹہ پہنچے تو ہزاروں افراد نہ صرف ان کے استقبال کے لیے نکلے بلکہ 27 جنوری کو کوئٹہ میں ان کی کال پر جو جلسہ منعقد کیا گیا وہ کوئٹہ کی تاریخ کے بڑے حلسوں میں سے ایک تھا۔
یاد رہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء 20 دسمبر 2023 کو گاڑیوں کے ذریعے ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد انھیں گرفتار کیا گیا تاہم رہائی کے بعد انھوں نے 23 جنوری تک اسلام آباد پریس کلب کے قریب دھرنا دیا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ کا کہنا تھا کہ ’ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم پوری دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب ہو گئے کہ ریاست کس طرح بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے اور کس طرح اس کے تمام ادارے اس کو روکنے میں ناکام ہیں۔‘اسلام آباد سے واپسی پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے لہجے میں تلخی بہت زیادہ تھی جس کی جھلک ان کے استقبال کے لیے آنے والے لوگوں اور جلسہ عام سے خطاب میں بھی نظر آئی۔انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر بلوچ کے گھر جا کر یہ بتا دیں گے کہ کس طرح آپ کی خواتین کی سروں سے چادر کھنیچی گئی اور کس طرح ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
دوسری جانب بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے لانگ مارچ کے شرکا کو ہراساں کرنے، ان پر تشدد کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت نے ریاست مخالف بیانیے کے باوجود لانگ مارچ کے شرکا کو ہر قسم کی سہولت اور تحفظ فراہم کیا۔‘انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد حکومت سے مذاکرات کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ ملک کے خلاف بین الاقوامی میڈیا اور ان کے سامعین کے لیے ایک بیانیہ لے کر گئی تھیں۔‘انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہ ’چونکہ بلوچستان اور ملک کے عوام نے لانگ مارچ کے جھوٹے بیانیے کو مسترد کیا اس لیے ڈاکٹر ماہ رنگ اور اس کے ساتھی اب مزید نفرتیں پھیلائیں گی۔‘
مطالبات تسلیم ہوئے بغیر لانگ مارچ کے شرکا نے دھرنے کو کیوں ختم کیا، وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے مستقل میں کیا کریں گے اور کیا وہ دوبارہ بھی اسلام آباد جائیں گے اس پر ہم نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے بات کی۔انھوں نے اسلام آباد میں دھرنے کے خاتمے کی کئی وجوہات گنوائیں
’وزیر اعظم انوار کاکڑ نے ہمیں دہشت گردوں کا ہمدردر قرار دیا‘
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس میں پریس کلب کے سامنے ہم بیٹھے تھے وہاں سے کوئی سہولت اور کوریج ملنا تو دور کی بات اس کے مینیجر نے ہمیں خطرہ قرار دے کر پولیس کو یہ درخواست تحریر کی کہ مارچ کے شرکا کو وہاں سے ہٹایا دیا جائے۔انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اسلام آباد پریس کلب کے لوگوں کو بتایا کہ بلوچستان میں کوئی میڈیا چینل ہمیں کوریج نہیں دیتا ہے اس لیے ہم اسلام آباد پریس کلب آئے ہیں تاکہ ہمیں کوریج دی جائے لیکن کوریج کی بجائے انھیں وہاں ہمارا بیٹھنا بھی گوارا نہیں ہوا۔‘انھوں نے کہا کہ یہ امر باعث افسوس ہے کہ ریاست اور اس کے زیر اثر دانشور اور میڈیا جبری گمشدگی جیسے ایک سنگین مسئلے کا جواز پیدا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم انوار کاکڑ نے ہمیں دہشت گردوں کا ہمدردر قرار دیا۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد ہم نے دیکھا کہ کوریج کرنے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی آئی۔‘’اس کے علاوہ بلوچستان حکومت کے وزیر اطلاعات نے ہمارے دھرنے کے دوران سات پریس کانفرنسز کرکے بے بنیاد الزامات لگائے۔
اذیتیں سہیں لیکن ریاست کو تشدد کا موقع فراہم نہیں کیا‘
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ تیس دنوں میں ریاستی اداروں نے ہر لمحہ کوئی ایسی کوشش کی تاکہ ہم جذباتی ہوجائیں اور ان کو تشدد کا جواز ملے لیکن ہم نہیں چاہتے تھے کہ ان کو ایسا موقع دیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت مذاکرات کی بجائے اپنی پوری طاقت اس بات پر لگارہی تھی کہ کس طرح اس پر امن تحریک کو دیوار سے لگائی جائے اور پھر اس کے خلاف ایک چھوٹا بیانیہ بنایا جائے ۔ہمارے ساتھ جو شرکاء تھے ان کی عمریں ایسی تھیں کہ ریاستی ادارے ان پر تشدد کرسکتے تھے اور بالخصوص اس کے جواز کے لیے اپنے ٹولے کے لوگوں کو لاکر ہمارے سامنے بٹھایا گیا تھا۔‘انھوں نے کہا کہ اگر ہم جذباتی ہوتے تو وہ ہمارے دھرنے کے شرکاء کو تشدد کا نشانہ بناکر اپنے ٹولے کو جواز بناتے ہوئے یہ کہتے کہ یہ تو دو گروہوں کا مسئلہ ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ان حالات کی وجہ سے ہم نے اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کی
’دھرنے کے مقاصد پورے ہو چکے تھے اور ہمیں بہت ساری کامیابیاں ملیں‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما نے کہا کہ ہمارے دھرنے کے مطالبات پر غور کرنے کی بجائے حکومت نے ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ریاستی اداروں کے اس عمل کو ہم ایکسپوز کرنا چاہتے تھے اور پاکستان سمیت دنیا کے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ نہ صرف ریاست بلکہ اس کا ہر ادارہ بلوچ نسل کشی میں باقاعدہ سہولت کار ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’اسلام آباد میں بہت سارے لوگ ہمارے کیمپ میں آئے جن میں عام شہریوں کے علاوہ باضمیر صحافی اور دانشور شامل تھے۔‘’انھوں نے ہماری مدد کی جس پر ہم ان کی تہہ دل سے مشکور ہیں۔وہاں کی عام آبادی ہمارے بیانیے کے ساتھ تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ اسلام آباد میں موجود دنیا کے سفیروں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ ریاست اور اس کے اداروں کا رویہ اور طرزعمل کیسا ہے۔’وہ کن کن انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں اور اس کے ادارے ان انسانی مسائل کے حل میں کس بری طریقے سے ناکام ہوچکے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ساٹھ دنوں کی اس جدوجہد میں ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی اور مبینہ جعلی مقابلوں میں ہلاکتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالی کے جو مسائل تھے ان کو ہم نے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا اور دنیا کو آگاہ کیا کہ آگے ریاستی ادارے ہماری پر امن تحریک کو ختم کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ماہ رنگ نے بتایا کہ ان کامیابیوں کے علاوہ ہم نے پاکستان بھر میں اپنے پیغام کو پہنچایا۔ہم نے دیکھا کہ محکوم اقوام کی جو تحریکیں ہیں وہ سب ہمارے ساتھ ہیں اور پنجاب کی جو عام آبادی ہے اس نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔
’ہم اب اپنے لوگوں کو منظم کریں گے‘
ڈاکٹر ماہ رنگ نے بتایا کہ ’چونکہ اسلام آباد جانے کے ہمارے جو مقاصد تھے وہ پورے ہوچکے تھے اس لیے ہم نے یہی سوچا کہ ہم بلوچستان کی جانب جائیں اور اپنے لوگوں منظم کریں گے۔‘اس سوال پر کہ آپ لوگ کسی نتیجے کے بغیر اسلام آباد سے واپس آئے تو کیا اب دوبارہ اسلام آباد جانے کا منصوبہ ہے، اس بارے میں انھوں نے ہاں یا ناں میں جواب دینے کی بجائے یہ کہا کہ ’فی الحال ہم بلوچستان میں لوگوں کو موبلائز کریں گے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’ہم جب تربت سے نکلے تھے تو مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے لوگوں کو مبینہ بلوچ نسل کشی کے خلاف موبلائز کریں کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کو کیا کرنا ہے۔’ان کو ریاستی اداروں، ڈیتھ سکواڈز اور سرداروں کی جانب سے ڈرایا اور دھمکایا جاتا رہا ہے۔ حتٰی کہ لاپتہ افراد سے متعلق حکومتی کمیشن میں بھی جب لواحقین اپنے لاپتہ پیاروں کا کیس لے جاتے ہیں تو ان کو وہاں بھی ہراساں اور بلیک میل کیا جاتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے لوگوں کو ایک طاقت دینا چاہتے تھے کیونکہ بالاچ مولا بخش کا اکیلا کوئی کیس نہیں تھا بلکہ سینکڑوں لوگوں کو اب تک مبینہ جعلی مقابلوں میں مارا گیا ہے۔‘’ہم 75سال سے پھیلائی جانے والے اس خوف کو جس کے باعث لوگ ایک پر امن احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے تھے ختم کرنا چاہتے تھے اور ہم اس میں بھی کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل ہماری منظم تحریک ہو گی جس کے لیے ہم بلوچستان میں ہر اس جگہ جائِیں گے جہاں لوگ بڑی تعداد میں ہمارے لیے نکلے ۔ہم ان کے پاس جائیں گے اور ان کو منظم کرکے ان کی طاقت بنیں گے۔