اسلام آباد سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام لانگ مارچ کے شرکاء کی کوئٹہ آمد

efef88f0-aa5c-11ee-beb5-e1400df560f2.jpg

لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آباد سے گزشتہ روز روانہ ہوئے تھے اور آج کوئٹہ پہنچے جہاں ہزاروں افراد نے اُن کا استقبال کیا اور ان کے ہمراہ یونیورسٹی آف بلوچستان تک مارچ کیا۔

لانگ مارچ کے شرکا وہ سب سے پہلے کوئٹہ کے جنوبی کنارے ہزار گنجی پہنچے جہاں ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ہزار گنجی سے وہ ایک ریلی کی شکل میں سریاب روڈ سے ہوتے ہوئے بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے پہنچے جہاں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے خطاب کیا۔خطاب کے دوران ڈاکٹر ماہ رنگ کا لہجہ سخت تھا اور انھوں نے کہا کہ ’اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں نے ہماری خواتین کی سروں سے چادر کھینچنے کے علاوہ انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچوں کو اپنی خواتین کے سروں سے چادر کھینچنے کے اقدام کو کبھی نہیں بھولنا چائیے اور نہ ہی اپنے ان لاپتہ بھائیوں کو بھولنا چائیے جو کہ ریاست کے زندانوں میں کئی برسوں سے اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہمیں پہلے روز سے معلوم تھا کہ اسلام آباد سے ہمیں انصاف نہیں ملے گا، اسلام آباد سے ہمیں نہ پہلے کوئی توقع تھی اور نہ آئندہ رہے گی۔‘

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’بعض سرکاری سردار یہ جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھوں نے مذاکرات کے زریعے دھرنا کو ختم کیا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے کسی سے مذاکرات کی بنیاد پر دھرنے کو ختم نہیں کیا۔ ایسے سرکاری سرداروں کو شرم آنی چائیے جو اپنی سیاست کے لیے جھوٹا دعویٰ کررہے ہیں۔‘

انھوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ زندانوں میں بند اپنے لاپتہ بھائیوں کو نہیں بھولیں اور نہ ہی ہم آپ لوگوں کو یہ بھولنے دیں گے۔‘انھوں نے کہا کہ ’اگر بلوچ نہیں اٹھے تو کل ان کی حالت بنگالیوں سے بھی بدتر ہوگی۔‘انھوں نے لوگوں سے 27 جنوری کو کوئٹہ میں ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس جلسہ عام میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی-‘

لانگ مارچ کے شرکاء کی شہر میں داخلے سے قبل بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ریاست مخالف بیانیے کے باوجود اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی گئی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔‘انھوں نے کہا کہ ’دھرنے کے حوالے سے جائز خدشات اس وقت پیدا ہوئے جب احتجاج کا رخ ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی جانب مڑا گیا۔‘انھوں نے کہا کہ ’جب پاکستانی ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں تو وہ محبت اور اچھی یادوں کی باتیں کرتے ہیں لیکن ماہ رنگ اب نفرت کی باتیں کریں گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’دھرنے کے شرکاء کو بلوچستان اور اسلام آباد کے عوام نے مسترد کیا۔ یہ چند لوگ ہیں اور یہ بلوچستان کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے