ایودھیا کا رام مندر اور مودی جی کی سیاست
’بھگوان رام میرے خواب میں آ کر کہہ گئے ہیں کہ 22 جنوری کو وہ ایودھیا نہیں پدھاریں گے، جس دن وزیراعظم نریندر مودی اس مندر میں میری مورتی رکھنے والے ہیں۔‘
یہ ہیں بہار کے سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے اور راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیج سنگھ یادو کے الفاظ۔
بی جے پی کے رہنما سبرامینیم سوامی کہتے ہیں: ’رام مورتی کی پران پرتیشٹھان یا رام مورتی کو مخصوص مقام پر رکھنے کی ہمت وہی کر سکتا ہے جس کی بیوی ہو، مودی اس کا افتتاح کرنے کے اہل نہیں۔‘
بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر کہتے ہیں: ’اگر بیمار ہو جاؤ گے تو ہسپتال جاؤ گے یا مندر؟ تعلیم کے لیے سکول چاہیے یا مندر؟ سوچ لو۔‘
یہ خیالات ہیں بعض اپوزیشن رہنماؤں کے جو نیشنل میڈیا میں نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر جاری ہو رہے ہیں۔
انڈیا کے میڈیا اور سیاست پر گو کہ صرف رام مندر ہی چھایا ہوا ہے، مگر اس کے ساتھ انڈیا کے سیکیولرازم پر اِکا دُکا سوال بھی اٹھ رہے ہیں حالانکہ مذہبی جنون کی اس لہر میں بیشتر لوگوں کی سوال کرنے کی ہمت جواب دے چکی ہے۔
بقول ایک سینئیر صحافی مہندر ملہوترا: ’اگر رام مندر بنانا تمام مسائل کا حل بتایا جا رہا ہے تو پورے انڈیا کو ایک بڑے مندر میں تبدیل کیوں نہیں کیا جاتا؟ تعلیمی اور صحت کے ادارے قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘
اپوزیشن کی تنقید اپنی جگہ مگر بی جے پی کو داد دینی ہو گی، جس نے انتخابات سے چند ہفتے قبل رام مندر کی مکمل تعمیر سے پہلے ہی اس میں بھگوان رام کی مورتی رکھنے کا منصوبہ بنایا۔ میڈیا، اداروں، سیاست اور عوام کے بڑے حصے کو دھارمک لہر یعنی مذہبی لہر میں ایسے جکڑ کر رکھا ہے کہ ایک تو انتخابی مہم چلانے کی شاید ہی اب ضرورت پڑے، دوسرا کوئی بھگوان کے خلاف کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔
کانگریس نے 22 جنوری کی اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے اپنے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے اور ’بھارت جوڑو‘ نیائے یاترا فی الحال تب تک بادلوں میں گھری رہے گی جب تک ایودھیا میں رام مورتی کو مندر میں رکھنے کا پروگرام ہے۔
راہل گاندھی کی یاترا کی کوئی میڈیا کوریج ہے اور نہ سوشل میڈیا پر اتنا زیادہ پرچار کیا جا رہا ہے پھر جس طرح کانگریس کے انکار پر بیانیہ بنایا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ جیسے ہندو مذہب خطرے میں پڑ گیا ہے۔
مگر اپوزیشن کی بعض دوسری جماعتیں خود کو بی جے پی سے زیادہ ہندو کہلانے کے مقابلے میں پیش پیش ہیں۔ مندروں میں بار بار حاضری دینے سے وہ عوام کو باور کروانے میں لگی ہیں کہ وہ بھی ہندو ہیں گو کہ مودی جیسے ہندو کا مقابلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔
اکلوتے مسلم لیڈر اسد الدین اویسی نے اس مقابلہ آرائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال ہنومان چالیسا پڑھ رہے ہیں جبکہ اڑیسہ کے نوین پٹنایک مندر سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ مودی نے اس قدر خوف طاری کیا ہے کہ شاید یہ لوگ مندر کو ہی گھر بنا لیں گے۔
میڈیا میں اس موضوع پر کوئی بات ہی نہیں کہ سولہویں صدی میں بنی بابری مسجد کو ڈیڑھ لاکھ ہندوؤں نے مسمار کر کے اس ملک میں ایک جرم کیا ہے، جو اپنے آپ کو دنیا کی بڑی جمہوریت اور سیکیولر کہلاتا ہے۔
اس وقت 25 کروڑ مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر اتنا کمزور کر دیا گیا ہے کہ وہ بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ 1947 میں سیکیولرازم کی گولی دے کر انہیں اپنے خاندانوں سے جدا کر دیا، وہ اب تک ہجرت کے مشکل مراحل سے گزر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کو طعنہ دیا جا رہا ہے کہ ’وہ بابر کی اولاد یں ہیں، جو انڈیا پر قابض ہوا تھا۔‘
مسلمان رہنما مصطفی کریم کے مطابق: ’مسلمانوں کو اس پرانی مسجد سے بےدخل کرنا اور پھر کسی دوسری جگہ زمین دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ سیاست دان مسلمانوں کو سیکیولر رہنے کا درس دیتے رہے اور خود ہندوتوا کو فروغ دے رہے تھے، مسلمان رنجیدہ ہیں مگر اس کا اظہار بھی نہیں کرپاتے کیوں کہ ہندوتوا والوں کو اس سے بھی خوشی ملتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک منصوبے کے تحت بی جے پی نے پہلے مسلم مخالف مہم شروع کر دی، رام مندر کا عدلیہ سے فیصلہ کروایا، پھرمسلم علاقے مسمار کر کے راستے بنائے، اب ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں پریشان کیا جا رہا ہے، روزگار پر حملہ، پوشاک پر حملہ، نماز پر حملہ، کھانے پر حملہ اور تعلیم حاصل کرنے پر حملہ، یہ پہلا قدم تھا، اب رام مندر کے بعد دوسرے مندروں کو عدالتوں میں زیر بحث لایا جا رہا ہے، سیاست یا عدلیہ میں ہماری نمائندگی صفر ہے، اب ہم اپنے حق کے لیے کیسے لڑیں اور کیا کریں۔‘
ایسا نہیں ہے کہ دوسری اقلیتیں اس جنونی لہرسے محفوظ ہیں اور جو سیکوازم کے سائے تلے زندگی گزارتی آ رہی تھیں، وہ بھی ہندوتوا سے پریشان ہیں۔
مودی گذشتہ کئی روز سے اپنے ہندو، پوجا اور گائے کی رکھشا کی تصاویر جس طرح وائرل کر رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ انہوں نے اب اپنا اصل پیشہ چن لیا ہے، وزیراعظم کا کام ملک میں روزگار فراہم کرنا، منی پور کے عوام کو تحفظ دینا اور معیشت کو سنبھالنا ہے، مندر میں نو دن تک پوجا کرنا نہیں ہے۔
اندازہ لگایا جارہا ہے کہ بھگوان رام کی مورتی کو مندر میں رکھنے کے بعد ہندو یاتریوں کی تعداد روزانہ ڈیڑھ لاکھ ہو گی، جن کے رہنے سہنے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ 70 ہزار مربع فٹ پر تعمیر سنگ مرمر کا یہ مندر ہندو آرکیٹیکٹ کا نمونہ بتایا جاتا ہے مگر ہندو مت کے چار گرو شنکر آچاریہ اس تقریب میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک کی ویڈیا وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ مندر مکمل ہونے کے بعد ہی مورتی کو رکھا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام وقت سے پہلے کیا گیا ہے جو دھرم کے مطابق نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ سیاسی طور پر اہم ہو مگر ہمارے لیے دھرم سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے۔
کانگریس کے ایک کارکن روی راٹھورنے شنکر آچاریہ کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ ’مودی گذشتہ کئی روز سے اپنے ہندو، پوجا اور گائے کی رکھشا کی تصاویر جس طرح وائرل کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انہوں نے اب اپنا اصل پیشہ چن لیا ہے، وزیراعظم کا کام ملک میں روزگار فراہم کرنا، منی پور کے عوام کو تحفظ دینا اور معیشت کو سنبھالنا ہے، مندر میں نو دن تک پوجا کرنا نہیں ہے۔‘
البتہ بی جے پی بڑی مطمئن نظر آ رہی ہے کہ اس نے اگلے پانچ سال کی دہلی کی کرسی کی ضمانت اس بار ہندو ویٹیکن کی تعمیر سے حاصل کر لی ہے اور انڈیا کو ہندو راشٹر بنانے کا مشن بھی پورا ہو رہا ہے۔
کالم نگار :-
نعیمہ احمد مہجور