مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کو ایک نئے طاقتور دشمن کا سامنا
مغربی ممالک کی جانب سے گزشتہ کئی دہائیوں سے اختیار کردہ فوجی مداخلت کی پالیسی کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے جسے مغربی ممالک کی بڑی ناکامی بھی سمجھا جا رہا ہے؛ اور وہ یہ ہے کہ یمن کی مسلح تحریک ’’انصار اللہ‘‘ (حوثیوں) نے اسرائیل اور غزہ کے جاری تنازع میں خود کو ایک فعال فریق کے طور پر شامل کر لیا ہے۔
پہلے تو ’’انصار اللہ‘‘ نے اسرائیل کی جانب چھوٹے موٹے حملے کرکے، بیلسٹک اور کروز میزائل فائر کرکے کارروائیوں میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن اب اس تنظیم نے بحر احمر میں اسرائیلی بحری جہازوں کی آمد و رفت کو بند کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دیے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اسرائیل کے شہر ایلات کی بندرگاہ جانے والے بحری جہاز اور کشتیوں کیلئے یہ راستہ بند کر دیا گیا ہے۔
انصار اللہ کی جانب سے چند بحری جہازوں پر قبضہ کرنے اور دیگر پر ڈرون حملے کرنے کے بعد ایلات بندرگاہ پر سرگرمیاں 85؍ فیصد تک کم ہوگئی ہیں۔
بین الاقوامی اور اسرائیلی بحری جہازوں نے بھی حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے طویل بحری راستوں کا سفر اختیار کرنا شروع کر دیا ہے اور کچھ معاملات میں یہ راستے عمومی اوقات سے 12؍ دن زیادہ وقت لے رہے ہیں، جس سے اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔
اس صورتحال کے جواب میں، امریکی وزیر دفاع لوائیڈ آسٹن نے خطے کا دورہ کیا اور کثیر القومی بحری ٹاسک فورس قائم کرنے کا اعلان کیا جسے بحر احمر میں تعینات کیا جائے گا۔
اتحاد کے قیام کی باتوں اور اس میں سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کو شامل کرنے کی باتیں تو بہت ہوئیں لیکن اس اتحاد میں صرف ایک ہی عرب ملک بحرین نے شمولیت اختیار کی۔
دیکھا جائے تو امریکا نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اعتماد میں لیے بغیر خطے میں مداخلت کا راستہ چُن لیا ہے۔ یہ صورتحال بہت ہی دلچسپ ہے کیونکہ اس مرتبہ امریکی اتحاد میں خطے کے بڑے ممالک نے شمولیت اختیار کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی اثر رسوخ کم ہو رہا ہے۔ لیکن اس صورتحال کی وجہ سے یمن کی تحریک انصار اللہ کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔
امریکی صدر اوباما کے دور میں قائم ہونے والے سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد نے2015ء میں ’’انصار اللہ‘‘ کیخلاف کارروائیاں کیں جس میں اب تک 3؍ لاکھ 77 ؍ ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں کی اکثریت یمن کے تباہ کن گھیراؤ اور محاصرے کی وجہ سے جبکہ 15؍ ہزار افراد براہِ راست تنازع کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ امریکا اور برطانیہ کی آشیرباد سے اس عرب اتحاد کا مقصد اقتدار اور یمن کے دارالحکومت صنعاء سے انصار اللہ کو ہٹانا تھا۔
اگرچہ انصار اللہ کو عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کے 80؍ فیصد حصے پر اسی تنظیم کا کنٹرول ہے، تنظیم کو دو تہائی افواج کی حمایت حاصل ہے۔ انصار اللہ واحد عرب تحریک ہے جس کے پاس تمام ریاستی اثاثہ جات کا کنٹرول ہے جبکہ ملک کی فوج اسرائیل کے ساتھ جاری تنازع میں حصہ لے رہی ہے۔
امریکا نے یمن میں انصار اللہ کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ انصار اللہ ایک ایسا سخت جان جنگی گروپ بن گیا جس نے اتنی ترقی کی کہ اس کی صلاحیت 2015ء میں تنازع شروع ہونے سے زیادہ بڑھ گئیں، 2021ء میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یمن میں جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن یمن اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ کرانے کی بجائے وعدہ توڑ کر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ کرانے کی کوشش کی۔ اب واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی سازوں کو یہ فیصلہ بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔
غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے، امریکا نے یہ بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کی حکومت کس قدر کارروائیاں کر سکتی ہے اور ان کارروائیوں کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ یہ تاثر دے کر امریکا نے فلسطین اسرائیل جنگ کو پورے عرب خطے میں پھیلنے کا موقع دیدیا ہے۔
اس تنازع کی وجہ سے اسرائیل اور لبنانی تنظیم حزب اللہ کے درمیان جنگ کا خطرہ روز بہ روز بڑھ رہا ہے جبکہ یمن کی تنظیم انصار اللہ کے رہنما عبدالمالک الحوثی نے کہا ہے کہ اگر امریکیوں کی جانب سے مسئلے کو پھیلایا گیا اور حماقتوں کا سلسلہ جاری رکھا تو انصار اللہ (حوثی) خاموش نہیں رہیں گے۔
تمام پیمانوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر امریکا کا اثر رسوخ کم ہوا ہے۔ امریکا مغربی ایشیا کے کسی بھی بڑے ملک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور خطے کے تمام اہم ممالک جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ روس اور چین کے ساتھ مل چکے ہیں۔
دنیا کو امریکا کی منافقت نظر آ رہی ہے۔ غزہ میں صرف دو ماہ کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی تعداد 23؍ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
غزہ میں لوگوں کو جس قدر مصائب کا سامنا ہے اس کی جدید دور میں نظیر نہیں ملتی۔ جدید تاریخ میں اتنے چھوٹے علاقے پر منوں اور ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد کا گرایا جانا بھی ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔
امریکا نے کئی مرتبہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرار دادوں کو ویٹو کیا، اسرائیل کو غیر مشروط طور پر اور لامحدود حمایت فراہم کی، اور اب یمن کیخلاف جنگ کیلئے مغربی ممالک کو اتحاد میں شمولیت کیلئے دھمکایا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو مسئلے کا حل بہت آسان ہے۔
انصاراللہ نے کہا ہے کہ غزہ پر جنگ ختم ہونے پر اسرائیل جانے والے بحری جہازوں کی ناکہ بندی ختم ہو جائے گی۔ واشنگٹن جنگ کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ایسا کرنے سے انکاری ہے، جبکہ یمن کے خلاف اس کی دھمکیاں کشیدگی کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔