جموں و کشمیر میں ریزرویشن کو لیکر احتجاج کی ڈیڈ لائن برقرار ہے، آغا سید روح اللہ مہدی
جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے ریزرویشن کوٹہ پر "وضاحت کی کمی” کو احتجاج کی آخری تاریخ کو برقرار رکھنے کی وجہ بتایا جا رہا ہے، جنرل امیدواروں کا الزام ہے کہ ان کے خدشات کو دور نہیں کئے گئے ہیں۔ عمر عبداللہ حکومت نے ریزرویشن کے معاملے پر کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کو منظوری دے دی ہے جو جون سے زیر التواء تھی۔ ریزرویشن میں توسیع کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں میں سکڑتے مواقع پر اوپن میرٹ کے امیدواروں میں احتجاج اور عدم اطمینان کے بعد کابینہ کے پینل کو ریزرویشن پالیسی پر نظرثانی کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے 2024ء میں مزید گروپوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے کوٹے میں توسیع کے بعد ریزرویشن کا حصہ 60 فیصد سے زیادہ ہے۔
اس نے 1992ء میں اندرا ساہنی کے فیصلے کے اپنے تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ 50 فیصد کی حد سے زیادہ کوٹہ بڑھا دیا ہے۔ اوپن میرٹ امیدواروں کی وکالت کرنے والے ایک گروپ کے نمائندے ساحل پرے نے کہا کہ ہم کابینہ کے اجلاس کے بعد حکومت سے وضاحت کی توقع کر رہے تھے لیکن کوئی دستاویز عام نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اوپن میرٹ کے لئے ریزرویشن کا فیصد بتایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریزرویشن پالیسی میں ترمیم پر حکومت کو دئے گئے الٹی میٹم پر "ان کے پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں” ہے۔ 3 دسمبر 2024ء کو جموں کشمیر میں عمر عبداللہ حکومت کے چارج سنبھالنے کے دو ماہ بعد، اوپن میرٹ امیدواروں نے وزیراعلٰی عمر عبداللہ کی رہائشگاہ کے باہر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہوئی کیونکہ اس کی قیادت نیشنل کانفرنس کے سینیئر لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کر رہے تھے۔
اب ایک سال بعد آغا سید روح اللہ مہدی نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے 20 دسمبر کو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے اختتام سے قبل ریزرویشن کا مسئلہ حل نہیں کیا تو نیا احتجاج کیا جائے گا۔ واضح رہے موجودہ وقت میں ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کا سیاسی قد کشمیر میں بڑھ گیا ہے اور ان کی پارٹی قیادت کے خلاف کھلی بغاوت نے انہیں نوجوانوں میں خاصی مقبولیت دلا دی ہے۔ اندرونی طور پر معلوم ہوا کہ ابھی تک یہ منصوبہ ختم نہیں ہوا ہے اور آغا سید روح اللہ اوپن میرٹ امیدواروں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے جاری اجلاس کے بعد میٹنگ کریں گے۔ یہ احتجاج عارضی طور پر 23 دسمبر کو مقرر کیا گیا ہے، جو سرینگر میں گپکار روڈ پر واقع وزیراعلٰی کی رہائشگاہ کے باہر طلباء کے احتجاج کے ایک سال کی مناسبت سے ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کے پینل نے عام امیدواروں کو ان کی نشستوں اور ملازمتوں میں حصہ 50 فیصد تک بڑھا کر توازن قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوپن میرٹ امیدواروں میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جو جموں و کشمیر کی کل آبادی کا تقریباً 70 فیصد ہیں لیکن حکومت نے باضابطہ طور پر معقولیت کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی ہیں کیونکہ انہیں ان لوگوں کی طرف سے ردعمل کا خدشہ ہے جن کا کوٹہ کم کیا گیا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ریزرویشن قوانین میں ترمیم پسماندہ علاقوں کے رہائشی (RBA) اور اقتصادی کمزور طبقے (EWS) کے کوٹہ فیصد کو کم کرکے انجام دی گئی ہے۔
عمر عبداللہ نے اپنی پارٹی کے رکن اسمبلی سید روح اللہ مہدی کا نام لئے بغیر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ریزرویشن کے معاملے پر کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے رہے تھے، انہوں نے ہمیں دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو احتجاج کریں گے۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس (ریزرویشن پالیسی) کو معقول بنانے کی کوشش کی گئی ہے جیسا کہ لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا، ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔
