1465263-dhakka-1544938983-457-640x480.jpg

خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے اخبارات میں سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کے بارے میں ریاستی بیانیے سے ہٹ کر بھی مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ کافی نہیں، نئی نسل کو آگاہی دینے کے لیے ضروری ہے کہ نصاب میں بتایا جائے انتھک محنت اور بے مثال قربانیوں سے حاصل کیا گیا وطن اپنے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد کیوں دولخت ہوا تھا۔ اس بحث کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس سانحے کو محض بنگالیوں کی بیوفائی اور اغیار کی سازش سمجھ کر فراموش نہیں کرنا بلکہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے۔

نئی نسل کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ خطہ بنگال ہی تھا جس کے فرزندوں نے 1906 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی، اور بعد ازاں اسی پلیٹ فارم سے علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ اور قائد اعظم کی قیادت میں منٹو پارک میں جو قرارداد لاہور منظور کی گئی، یہ بنگال کے وزیراعظم مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ 1945۔ 46 ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مرکز اور صوبوں میں 90 فیصد مسلم نشستیں جیت لیں۔

ان منتخب نمائندوں کا کنونشن اپریل 1946 ء میں دہلی میں طلب ہوا، جس میں بنگال کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے ریاستوں کے بجائے صرف ریاست پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی تھی جس کی بنیاد پر برطانوی حکومت کو ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے میں تشکیل پاکستان کا مطالبہ منظور کرنا پڑا۔ تاکہ نئی نسل یہ باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے اس امر پر غور کرے کہ صرف ربع صدی بعد اسی خطے میں متحدہ پاکستان کے خلاف بغاوت کیوں پنپی اور مسلم قومیت پر بنگلہ قومیت کیسے حاوی ہو گئی؟

نئی نسل کو بیشک بتائیں کہ دونوں بازوؤں کے درمیان کینہ پرور دشمن حائل تھا، جس کے دل میں اتحاد و یگانگت کانٹا بن کر چبھ رہی تھی۔ انصاف سے کام لیتے ہوئے لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ واحد عامل نہیں گھر کے اندر اعتماد ہوتا تمام باسیوں کو انصاف و یکسانیت محسوس ہوتی تو محض لگائی بجھائی سے دشمن اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا تھا۔

ہمارے ہاں عام طور پر مشرقی پاکستان کے سقوط کی وجوہات میں مذہبی، علاقائی اور بین الاقوامی عناصر کا عمل دخل بیان کیا جاتا ہے۔ یہ وجوہات اپنی جگہ درست ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر ملک کے دونوں حصوں میں انصاف سے کام لیا گیا ہوتا تو نوبت بٹوارے تک شاید نہ پہنچتی۔ یہ درست ہے کہ ملک کے دونوں حصوں میں بد اعتمادی کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ قائداعظم کو زندگی نے کتنی مہلت دی تھی اور ان کے بعد ملکی سیاسی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں تھی۔

زبان کے مسئلے پر اختلاف تو حل ہو سکتا تھا بد اعتمادی کی خلیج اس وقت وسیع ہوئی جب کچھ عرصہ بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدان خواجہ ناظم الدین کو بھی اقتدار سے علیحدہ کر کے ایک بیوروکریٹ بٹھا دیا گیا۔ سول ملٹری بیوروکریسی میں بنگالیوں کی نمائندگی پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھی، نچلے درجے کی ملازمتوں پر اکثر بنگالی تعینات تھے اور ہر وہ کام جو معیوب سمجھا جا سکتا ہے وہ ان سے لیا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان کے تقریباً تمام اضلاع میں بیوروکریٹس مغربی حصے سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ان میں سے بیشتر افسران کا طرز عمل مقامی ماتحت عملے سے انتہائی حقارت پر مبنی تھا۔

1956 ء میں پہلا آئین بنا تو بنگالی بہت خوش ہوئے اور انہیں کسی قدر تحفظ کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا، لیکن 1958 ء کے مارشل لاء نے سے ایک بار پھر شدت سے مایوسی کی لہر دوڑا دی۔ ملک کے مشرقی حصے کی آبادی اس وقت 56 % جبکہ مغربی حصے کی 44 % تھی۔ ملٹری ڈکٹیٹر ایوب خان نے ون یونٹ کے قیام کا اعلان کر کے جب آبادی کے تناسب کے فرق کے باوجود دونوں حصوں کی نمائندگی یکساں کی تو باہم اعتماد کا بالکل جنازہ نکل گیا۔ پھر 65 ء کی جنگ میں یہ جواز بتا کر کہ مشرقی حصے کا دفاع مغرب سے جارحانہ حکمت عملی اپنا کر کیا جائے گا بنگالیوں کے دلوں میں موجود بیگانگی کے احساس کو یقین میں بدل دیا۔

بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ مشرقی پاکستان اور بھارت کی سرحد 2700 کلو میٹر طویل تھی۔ اس طویل سرحد کے دفاع کے لیے مشرقی پاکستان میں صرف 25 ہزار فوجی تعینات تھے۔ اس دوران معاشی طور پر ملک کے دونوں حصوں میں عدم مساوات بھی عروج پر تھی۔ اسی سبب مشرقی پاکستان کے عوام کی شکایات بتدریج بڑھتی گئیں جنہیں بنیاد بنا کر شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات پیش کر دیے اور مقبولیت حاصل کر لی۔ اس مسئلے کا منصفانہ سیاسی حل نکالنے کے بجائے چھ نکات کا جواب غداری کے الزامات سے دیا گیا تو شیخ مجیب کی مقبولیت عصبیت میں بدل گئی۔

1970 ء کے انتخابات میں اسی عصبیت کو بروئے کار لاکر مجیب کی جماعت عوامی لیگ نے مشرقی حصے میں تقریباً کلین سویپ کر کے حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اصولی طور پر اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کا حق حاصل تھا لیکن مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت کے سربراہ ذوالفقار بھٹو نے اس وقت کی عسکری قیادت کی آشیرباد سے پہلے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا، بعد ازاں پارلیمنٹ کا اجلاس ہی منسوخ کر دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ڈھاکہ جانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

رد عمل میں ابھرنے والی تحریک کو تشدد سے دبانے کی سعی ہوئی اور حالات قابو سے باہر ہوئے جس کے بعد دشمن کو بھی مرضی کے رنگ بھرنے کا مل موقع مل گیا اور شیخ مجیب نے بھی کھل کر علیحدگی کا مطالبہ کر دیا۔ اس کے بعد جو خونچکاں داستاں گزری، جس اذیت و قیامت سے گزرنا پڑا، جتنی جگ ہنسائی ہوئی، ذلت و رسوائی کے داغ کہاں کہاں لگے مرضی کی تاریخ لکھ کر ہم وہ چھپانا چاہیں تو بھی چھپ نہیں سکتے۔

ہمارا اصل المیہ ہے کہ ہم مرضی کی تاریخ لکھتے ہیں کہ اصلاح کی کوشش نہ کرنی پڑے اور ہماری حالت نہ بدلنے کی یہی وجہ ہے۔ اتنی بڑی قیامت سے گزرنے کے بعد بھی سیاسی سماجی اور معاشی سطح پر نا انصافی اور دہرے معیار میں ہم کمی نہیں لائے۔ نظام مضبوط بنانے کے بجائے شخصیات پر انحصار میں کمی نہیں آئی۔ جمہوریت کو اسی ڈھب پر چلانے پر اصرار اب بھی ہے جس کے ہولناک نتائج سے ہم نا آشنا نہیں۔ ریت پر صورتیں بنانا اور مٹانا اب بھی ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

آج تک ہم فیصلہ نہیں کر سکے کہ محب وطن کون ہے اور غدار کون۔ اختلاف کرنے والی زبانوں پر قفل ڈالنے اور سر اٹھا کر چلنے والوں کو پابہ زنجیر کرنے کی نت نئی ترکیبیں آج بھی ایجاد ہوتی ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی باتیں بد قسمتی سے آج بھی حقیقت ہیں۔ اب بھی ہم فرضی دشمن تخلیق کرنے اور اور اس سے نمٹنے کے لیے میسر وسائل سے بڑھ کر بندوبست کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں حالانکہ تاریخ بارہا ثابت کر چکی اپنے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں۔ ہم اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر جمہوری اقدار مضبوط بنا لیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈال کر معاشی میدان میں مضبوط ہو جائیں تو کسی دشمن کی سازش ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے