نئی حزب اللہ کا خوف

IMG_20251110_153635_225.jpg

 

موجودہ زمینی حقائق اور اسرائیلی اور امریکی حکام کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خطے میں ایک اور فوجی ٹکراو شروع کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیر جنگ اور عراقی وزیر دفاع کے درمیان حالیہ فون کال کا بھی اسی حوالے سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ عراقی وزیر دفاع ثابت العباسی نے 11 منٹ کی کال کو اس طرح بیان کیا: "میں نے امریکی وزیر جنگ سے ایک مختصر بات کی، انہوں نے مجھے بتایا کہ خطے میں ایک فوجی آپریشن ہونے والا ہے اور یہ آپ کے لیے ہماری آخری وارننگ ہے: عراقی مسلح گروہوں کو رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔” بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ فوجی کارروائی کا ہدف ممکنہ طور پر ایران یا لبنان میں حزب اللہ ہے۔ تاہم مغربی ایشیائی خطے کے حالات اور صیہونی رژیم کی فوجی نقل و حرکت کو دیکھتے ہوئے لبنان اور حزب اللہ پر حملہ ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ لبنانی حکومت کی طرف سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکامی کے بعد صیہونی رژیم اور ٹرمپ اب حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر اور اس کے کمانڈروں اور سیاسی اہلکاروں کو قتل کر کے حزب اللہ کو علاقائی سیاست کے میدان سے ختم کرنے کا اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم میدانی اور سیاسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ صیہونی رژیم کو لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ ایک نیا فوجی ٹکراو شروع کرنے میں بے شمار رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا ہے۔ لبنان پر غاصب صیہونی رژیم کے نئے فوجی حملے کے امکان کے حوالے سے کئی نکات قابل غور ہیں۔
1)۔ غاصب صیہونی رژیم اور حزب اللہ کے درمیان 27 نومبر 2024 کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد حزب اللہ اپنی تعمیر نو کے عمل کو مضبوطی اور درستگی کے ساتھ انجام دینے میں کامیاب رہی۔ حزب اللہ گزشتہ 11 مہینوں میں انتہائی مشکل حالات سے گزری ہے۔ شہید سید حسن نصراللہ اور متعدد اعلی سطحی سیاسی رہنماوں اور فوجی کمانڈروں کی شہادت نے حزب اللہ کو ایک بڑے سیاسی اور فوجی خلا سے روبرو کر دیا تھا۔ اس خلا نے لبنان کی اندرونی پیش رفت پر بہت زیادہ اثر ڈالا۔ امریکہ نے لبنان کے صدر جوزف عون اور وزیر اعظم نواف سلام پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا عمل شروع کرنے اور مکمل کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا۔ اس سلسلے میں اسں نے لبنانی حکومت کو کئی سو ملین ڈالر کے مراعاتی پیکج کی پیشکش بھی کی اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر حزب اللہ غیر مسلح نہ ہوئی تو لبنان کو امریکہ کی سزا کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ غاصب صیہونی رژیم کے ایک اور فوجی حملے کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ امریکی حکومتی عہدیداروں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ حزب اللہ کے خلاف نئی جنگ بھی شروع کر سکتے ہیں۔
کچھ علاقائی ممالک جیسے سعودی عرب نے بھی اس راہ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ سعودی حکام نے لبنانی وزیر اعظم نواف سلام کے ذریعے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے منصوبے پر عمل کیا۔ اس دوران کئی عوامل نے لبنانی حکومت کو حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے سے روک دیا جیسا کہ امریکی اور غاصب صیہونی رژیم چاہتے تھے۔ لبنانی حکومت کے سامنے سب سے اہم رکاوٹ حزب اللہ کی لبنان میں پوزیشن اور مزاحمت کی سماجی طاقت ہے۔ لبنانی معاشرے میں آبادیاتی ساخت اور حزب اللہ کی قبولیت دونوں کے لحاظ سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے عمل کرتی ہے تو لبنان ایک بڑی خانہ جنگی میں داخل ہو جائے گا اور زمینی حقائق کی بنیاد پر حزب اللہ اس خانہ جنگی کی فاتح ہو گی۔ ایک اور رکاوٹ لبنانی فوج میں حزب اللہ کا کافی اثرورسوخ ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے خطرات کے مقابلے میں لبنان کی سلامتی کو یقینی بنانے میں مزاحمت کے ہتھیاروں کے کردار کے پیش نظر لبنانی فوج کے بعض کمانڈر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کو غاصب صیہونی رژیم کے لبنان پر غلبہ حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ لہذا فوج نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی حکومتی پالیسی کے لیے ضروری تعاون فراہم نہیں کیا۔
دوسری جانب غاصب صیہونی رژیم کے شام اور پھر قطر پر حملے نے اس کے خطرے کے حوالے سے لبنانی حکومت کے اہلکاروں میں ایک قسم کے شکوک اور خوف کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی کا ریاض کا دورہ بھی علاقائی حکام کے درمیان اسی تشخیص کو استعمال کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس سفر کے بعد ہی سعودی عرب کے حکام کے ساتھ حزب اللہ کی بات چیت کا موضوع اٹھایا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ قطر پر غاصب صیہونی رژیم کے حملے اور علی لاریجانی کے سعودی عرب کے دورے کے بعد بیروت میں پیش رفت کی طرف ریاض کی پالیسیوں میں ایک طرح کا موڑ آیا۔ اسی طرح بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کا قطر پر حملہ سعودی حکام کو اس نتیجے پر پہنچانے کا سبب بنا کہ انہیں خطے میں اپنی پالیسیوں کا خاکہ خاص طور پر لبنان کے حوالے سے، اس طرح نہیں بنانا چاہیے جس سے نیتن یاہو کی خطے کے ممالک پر جارحیت کی پالیسی کی راہ ہموار ہو۔ یہی اندازہ لبنانی حکومتی عہدیداروں میں بھی پیدا ہوا۔ شام اور قطر پر غاصب صیہونی رژیم کے حملوں نے لبنان کے خلاف حکومت کے خطرات کو دوگنا کردیا ہے۔
اسی بنا پر بعض لبنانی حکام، تجزیہ کاروں اور ذرائع ابلاغ نے خبردار کیا ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ غاصب صیہونی رژیم کے خطرے کے مقابلے میں لبنان کی دفاعی صلاحیتوں میں نمایاں کمی کرے گا اور اس حکومت کو لبنان پر حملہ کرنے کی ترغیب دے گا۔ لہذا اس منصوبے کو ملک کی رائے عامہ میں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ درحقیقت حزب اللہ کے ہتھیاروں کے دفاع میں لبنان میں اب ایک قسم کا قومی اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کسی بھی نئے تنازع کی قیمت حزب اللہ کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ لبنانی معاشرہ اب غاصب صیہونی رژیم اور امریکہ کی طرف سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے ڈالے گئے دباؤ کی نوعیت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے چکا ہے۔ لہٰذا لبنان کے اندر بعض فسادات کے باوجود اس بات کا امکان نہیں ہے کہ غاصب صیہونی رژیم اور امریکہ حزب اللہ کے خلاف نیا فوجی حملہ کرکے لبنان کے اندر سماجی دباؤ پیدا کر سکیں۔
2)۔ مصدقہ اور معتبر رپورٹوں اور خبروں کے مطابق حزب اللہ گزشتہ 11 مہینوں میں اپنی تعمیر نو کے عمل کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔ اس عرصے میں حزب اللہ اپنے عسکری اور سیاسی کمانڈ کیڈر کی تعمیر نو کرنے میں کامیاب رہی اور ماضی کی جنگ سے حاصل ہونے والے تجربات کے ساتھ اپنے سیکورٹی، انٹیلی جنس اور تحفظ کے نظام کو از سر نو متعین کیا۔ اسی مناسبت سے درمیانی لائنوں کی مرمت اور سینئر کمانڈروں اور انٹرمیڈیٹ اور فیلڈ کمانڈروں کے درمیان مواصلاتی پلوں کا قیام بھی تمام حفاظتی امور کے ساتھ انجام دیا گیا۔ حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں غاصب صیہونی رژیم حزب اللہ کے بعض درمیانی اور فیلڈ کمانڈروں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن اب تک کمانڈروں اور اعلیٰ عہدیداروں کو قتل کرنے میں ناکام رہی ہے، جیسا کہ اس نے اکتوبر اور نومبر 2024 میں کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ کی تعمیر نو کا عمل انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے نظام کو احتیاط کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ نے فوجی سازوسامان اور صلاحیتوں کے میدان میں بھی اہم اور موثر اقدامات کیے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے گزشتہ سال کی جنگ کے دوران حزب اللہ کے 90 فیصد میزائل اور ڈرون صلاحیتوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم اسرائیلی میڈیا اور مغربی ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق حزب اللہ گزشتہ ایک سال کے دوران اپنے اسلحہ سازی کے عمل کو درستگی کے ساتھ انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔
3)۔ نیتن یاہو کی سب سے اہم تشویش اور حزب اللہ کے خلاف نئی جنگ شروع کرنے کا خوف یہ ہے کہ گزشتہ سال کی جنگ کے بارے میں اس کا بیانیہ مخدوش ہو کر رہ جائے گا۔ 27 نومبر 2024 کو جنگ بندی کے بعد نیتن یاہو نے دعویٰ کیا تھا کہ غاصب صیہونی رژیم نے حزب اللہ پر بڑی فتح حاصل کر لی ہے۔ سید حسن نصراللہ کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے متعدد سیاسی رہنماؤں اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے اور حزب اللہ کے فوجی مراکز اور میزائل پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے نیتن یاہو نے دعوا کیا تھا کہ حزب اللہ سے خطرہ بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ اس کے مطابق وہ آباد کاروں کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں مقبوضہ علاقوں کی شمالی بستیوں کے مکینوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے پر راضی کرنے میں کامیاب رہا۔ گزشتہ 11 مہینوں کے دوران نیتن یاہو نے اپنی تقریباً تمام تقاریر میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی رائے میں حزب اللہ کا مسئلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اب شمالی مقبوضہ علاقوں میں کوئی بڑا اور اہم خطرہ نہیں ہے۔ لیکن نیتن یاہو اور غاصب صیہونی رژیم کے سیکورٹی حکام دونوں جانتے ہیں کہ ان دعووں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
حزب اللہ کے خلاف نئے سرے سے فوجی حملے کا یقینی طور پر لبنان کی اسلامی مزاحمت کی جانب سے فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ غاصب صیہونی رژیم کے حملوں کے خلاف مزاحمت کا ردعمل سب سے پہلے لبنان کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کے سرحدی علاقوں میں آباد کاروں کے فرار کا باعث بنے گا جس سے نیتن یاہو کے دعوؤں کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ دوسری جانب حزب اللہ اپنے میزائل اور ڈرون حملوں سے مقبوضہ علاقوں کی گہرائیوں کو نشانہ بنائے گی۔ اگرچہ پچھلے سال کی جنگ بڑی حد تک شہید سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے متعدد سینئر رہنماؤں اور کمانڈروں کی شہادت سے ہمراہ تھی لیکن اس جنگ میں بھی حزب اللہ کے کچھ اہم حملے، جیسے حیفا کے قریب اسرائیلی فوجی دستوں کی خفیہ چھاؤنی پر حملہ، اس قدر اہم اور متاثر کن تھے کہ بعض عسکری ماہرین نے اسے انٹیلی جنس اور فوجی شعبے میں ایک عظیم کارنامہ قرار دیا تھا۔ اس طرح کے حملے حزب اللہ لبنان کے مرکزی اداروں میں کمال کی انٹیلی جنس اور آپریشنل ہم آہنگی ظاہر کرتے ہیں۔ انہی تجربات کی روشنی میں کسی بھی ممکنہ نئی جنگ میں حزب اللہ لبنان کی فوجی کاروائیاں غاصب صیہونی رژیم کے لیے شدید پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
4)۔ امریکی وزیر جنگ اور عراقی وزیر دفاع کے درمیان ٹیلی فونک رابطے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکام اور غاصب صیہونی رژیم کے رہنما حزب اللہ کے خلاف جنگ میں دیگر مزاحمتی دھڑوں کے ردعمل سے سخت خوف زدہ ہیں۔ یقیناً وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کے رابطے اور دھمکیاں مزاحمتی محاذ کے فیصلوں اور اقدامات میں خلل نہیں ڈال سکتیں۔ حزب اللہ کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی جنگ پر مزاحمتی محاذ کے دھڑوں کا ردعمل صرف عراق یا یمن تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ مزاحمتی کمانڈر اس وقت کیا فیصلہ کریں گے اور کس سطح پر اور کس صلاحیت کے ساتھ مزاحمت کا ہر دھڑا حزب اللہ کی حمایت کے میدان میں اترے گا۔ مزاحمتی محاذ نے گزشتہ ایک سال کے دوران خاطر خواہ اقدامات اور انتظامات پر عمل درآمد اور سوچ بچار کیا ہے۔ ان اقدامات اور انتظامات کا حقیقی نفاذ جنگ کی حالت پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ امریکہ کی موجودگی اور حزب اللہ پر حملے میں اس حکومت کی حمایت خطے میں امریکی مراکز اور فوجی اہلکاروں کو مزاحمت کے لیے ایک جائز ہدف میں تبدیل کر دے گی۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ امریکی حکام اسلامی مزاحمت کے دوسرے فریقوں کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ وہ غاصب صیہونی رژیم اور امریکہ کے درمیان حزب اللہ کے خلاف نئی جنگ کی صورت میں کوئی ردعمل ظاہر نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے