قتل و غارت کی ٹیکنالوجی

دنیا نے گذشتہ چند دہائیوں میں جنگی وسائل اور سیکورٹی کے انتظام میں بہت گہری تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ اگر بیسویں صدی میں تیل اور توانائی جغرافیائی سیاسی مسابقت کے اہم عوامل تھے تو اکیسویں صدی میں ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجیز، خاص طور پر مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ طاقت کی مساوات کا مرکز بن گئے ہیں۔ فوجیں اب مکمل طور پر روایتی ہتھیاروں پر انحصار نہیں کرتی ہیں بلکہ ڈیٹا کے تجزیہ کے نظام، پیش گوئی کرنے والے الگورتھم اور کلاؤڈ نیٹ ورکس نے فوجی حکمت عملیوں میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہے۔ دریں اثنا، غاصب صیہونی رژیم مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک کے طور پر اپنی بقا اور فوجی برتری کے لیے تکنیکی طاقت پر پہلے سے زیادہ انحصار کرتی رہی ہے۔ صیہونی فوج کے ڈھانچے میں خصوصی یونٹس جیسے "یونٹ 8200” کی موجودگی سیکورٹی اور ٹیکنالوجی کے انضمام کی واضح مثال ہے۔ یہ یونٹ نہ صرف جاسوسی اور الیکٹرانک معلومات اکٹھا کرنے کا ذمہ دار ہے بلکہ مصنوعی ذہانت اور سائبر سیکیورٹی کے شعبوں میں ایک قسم کے اختراعی مرکز کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں سرگرم بہت سے اسرائیلی اسٹارٹ اپ اس یونٹ میں براہ راست جڑیں رکھتے ہیں اور اس کے تجربے اور بنیادی ڈھانچے سے پروان چڑھتے ہیں۔
غاصب صیہونی رژیم امریکہ کی اتحادی ہونے کے علاوہ درحقیقت خطے میں نئی امریکی فوجی اور انٹیلی جنس ٹیکنالوجیز کو جانچنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کی جنگ یا پچھلے دو سالوں میں چھ دیگر ممالک کے ساتھ صیہونی رژیم کی جنگوں میں نت نئے ہتھیار، جدید انٹیلی جنس ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت کا وسیع استعمال کیا گیا اور یوں یہ جنگیں ان کی جانچ پڑتال اور تصدیق کرنے کا موقع بن گئیں۔ پچھلے ہفتے شائع ہونے والی رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ ریڈمنڈ امریکہ میں موجود مائیکروسافٹ نے اسرائیلی فوج خاص طور پر یونٹ 8200 کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھایا ہے۔ اس تعاون میں بڑے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لیے کلاؤڈ انفراسٹرکچر اور مصنوعی ذہانت کے اوزار فراہم کرنا شامل تھا اور اس نے ٹیکنالوجی اور انسانی حقوق کی کمپنیوں کی اخلاقیات کے بارے میں وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ اسی طرح این بی سی اور مڈل ایسٹ آئی جیسے معتبر خبری ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ مائیکروسافٹ نے اپنی کلاؤڈ سروسز اور مصنوعی ذہانت اسرائیلی فوج کو براہ راست فراہم کی ہیں۔ اس شراکت داری کا بنیادی مقصد اسرائیلی فوج میں ڈیٹا سے چلنے والے منصوبوں کی حمایت کرنا ہے جو سوشل نیٹ ورکس، بات چیت اور سیٹلائٹ امیجز سے حاصل ہونے والی معلومات کے وسیع پیمانے پر تجزیہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز اہداف کو ٹریک کرنے، طرز عمل کی پیشن گوئی کرنے اور مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر فوجی آپریشنز کو ڈیزائن کرنے میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔
اخبار گارجین، 972 میگزین اور لوکل کال میڈیا کی مشترکہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2022 سے اسرائیلی فوج کی سائبر انٹیلی جنس شاخ یونٹ 8200، ایک بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام چلا رہی ہے جو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی طرف سے کی جانے والی فون کالز کو وصول، ریکارڈ، اسٹور اور تجزیہ کرتا ہے۔ ڈیٹا کو Microsoft Azure کلاؤڈ سرورز (ہالینڈ، آئرلینڈ اور بعض اوقات اسرائیل کے اندر ڈیٹا سینٹرز) پر محفوظ کیا جاتا ہے۔ اندرونی ذرائع کے مطابق، پراجیکٹ نے خاص طور پر یونٹ 8200 کے لیے کالز کے بڑے حجم کو ذخیرہ کرنے اور تجزیہ کرنے کے لیے "Azure الگ الگ ماحول” بنایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام "ایک ملین کالز فی گھنٹہ” (روزانہ لاکھوں فون کالز کے برابر) کو ریکارڈ کرنے کے قابل ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ڈیٹا براہ راست فضائی حملوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یعنی حملوں کے بارے میں فیصلے کرنے میں مدد کے لیے ہدف والے علاقوں کے قریبی لوگوں سے فون کی معلومات کی جانچ کی گئی۔ اس انکشاف کی اہمیت یہ ہے کہ جیسے جیسے غزہ میں انسانی بحران بڑھ رہا ہے عالمی رائے عامہ انتہائی حساس ہو گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ غزہ جنگ میں اہداف کے انتخاب اور فضائی حملوں کے عمل میں ڈیٹا سے چلنے والی ٹیکنالوجیز کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایسے حملے جن میں ہزاروں شہری مارے گئے۔
امریکہ کی سیاسی فضا میں بھی اس تعاون کی بڑے پیمانے پر گونج سنائی دیتی ہے۔ کچھ ڈیموکریٹک اراکین کانگریس نے ان اقدامات کے نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کمپنیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان تعلقات میں زیادہ شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور تعلیمی گروپوں نے مائیکروسافٹ کا بائیکاٹ یا دباؤ ڈالنے کی مہم شروع کی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ بین الاقوامی قانون نجی کمپنیوں کو امریکی اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے سے براہ راست منع نہیں کرتا لیکن کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) کے اصولوں اور ٹیکنالوجی سے وابستہ اخلاقی ذمہ داریوں کے تحت، مائیکروسافٹ کو سنگین سوالات کا سامنا ہے: کیا ایسی خدمات فراہم کرنا جائز ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کا خطرہ ہو؟
جو چیز اس معاملے کو مزید قابل ذکر بناتی ہے وہ ان ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اندر احتجاج کی لہر کا شروع ہو جانا ہے۔ حالیہ مہینوں میں گوگل اور ایمیزون کے درجنوں ملازمین کو پراجیکٹ "نمبس” کے خلاف احتجاج کرنے پر برطرف یا معطل کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے پراجیکٹ "نمبس” اسرائیلی فوج کے ساتھ ایسا ہی ایک معاہدہ ہے۔ اب مائیکروسافٹ کے تعاون کا انکشاف ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ سیلیکون ویلی کی اندرونی فضا بھی انتہائی انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کوئی نیا واقعہ نہیں ہے اور اس کی تاریخ گذشتہ کئی دہائیوں پر مبنی ہے۔ 1980 کی دہائی سے اسرائیل کو امریکہ کے لیے "سیکیورٹی ٹیکنالوجی لیبارٹری” کے طور پر جانا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے جاری تنازعے کی مخصوص نوعیت اور علاقائی سلامتی کی صورتحال نے بہت سی فوجی اور تکنیکی ایجادات کو پہلے اسرائیل میں تیار کیا اور پھر عالمی منڈیوں میں منتقل کیا۔ مائیکروسافٹ ان پہلی امریکی کمپنیوں میں سے ایک ہے جس نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں تل ابیب اور حیفہ میں وسیع تحقیق اور ترقی کے دفاتر قائم کیے تھے۔ ان مراکز نے نہ صرف مائیکروسافٹ کے تجارتی منصوبوں کی حمایت کی بلکہ حکومت کے سیکورٹی یونٹس کے ساتھ تعاون کے مرکز کے طور پر بھی کام کیا۔ متعدد رپورٹس بتاتی ہیں کہ یونٹ 8200 گریجویٹس کے ذریعہ قائم کردہ کچھ اسرائیلی سائبر سیکیورٹی اسٹارٹ اپس کو بعد میں مائیکروسافٹ نے حاصل کیا اور کمپنی کے سیکیورٹی انفراسٹرکچر میں ضم کیا گیا۔ مثال کے طور 2015 میں Adallom کی خرید اس تعلق کی واضح مثال ہے۔ یہ ایک کلاؤڈ سیکیورٹی اسٹارٹ اپ ہے جو یونٹ 8200 کے اہلکاروں نے قائم کیا تھا۔
گوگل اور ایمیزون نے بھی 2020 کی دہائی کے اوائل سے اسرائیلی فوج کے ساتھ مزید باضابطہ تعاون کیا ہے۔ سب سے اہم مثال نمبس پراجیکٹ ہے جو کہ اسرائیلی حکومت اور ان دو ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان اربوں ڈالر کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اسرائیلی فوج اور سرکاری اداروں کو کلاؤڈ سروسز اور ڈیٹا پروسیسنگ فراہم کی جائے گی۔ اگرچہ گوگل اور ایمیزون نے دعویٰ کیا کہ یہ خدمات شہری استعمال کے لیے بھی استعمال ہوں گی، لیکن شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ براہ راست فوج کو فراہم کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، میٹا (سابقہ فیس بک) نے ایک مختلف کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ اس کمپنی کا اسرائیلی فوج کے ساتھ براہ راست معاہدہ نہیں ہے، لیکن اسے اس کی مواد کے انتظام کی پالیسیوں اور فلسطینیوں کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی میں اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے بارہا اطلاع دی ہے کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر فلسطینی مواد کو غیر متناسب طور پر ہٹا دیا گیا ہے یا اسے محدود کر دیا گیا ہے، جب کہ فلسطینیوں کے خلاف اشتعال انگیز مواد پر کم پابندی ہے۔ اسرائیلی سیکورٹی معاہدوں کے لیے بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں کے درمیان یہ مقابلہ بازی خاص طور پر 2014 کے بعد اور غزہ جنگوں کے ایک نئے دور کے آغاز کے بعد شدت اختیار کر گئی۔ اس وقت اسرائیلی حکومت نے "دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل فوج” بنانے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ اس مقصد نے نہ صرف اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی ملکی ترقی میں مدد کی بلکہ امریکی کمپنیوں کی طرف سے بڑی سرمایہ کاری کی راہ بھی ہموار کی۔