ٹرمپ پلان اور مسجد اقصٰیٰ

یہ کہانی بہت لمبی اور پرانی ہے۔ اس کہانی میں غیروں کے دھوکے بھی ہیں اور اپنوں کی بے وفائیاں بھی۔ تاہم ایک ایسے شخص کا ذکر بھی آتا ہے، جسے اہل فلسطین نے مشکل وقت میں بار بار پکارا اور وہ فلسطینیوں کیلئے برطانوی سامراج کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس شخص کا نام محمد علی جناح تھا، جسے پاکستان میں قائد اعظم اور بابائے قوم کہا جاتا ہے۔ آج میں آپ کو اس لمبی کہانی کا ایک ایسا واقعہ سنانا چاہتا ہوں، جو پرانی کتابوں اور دستاویزات میں چُھپا دیا گیا اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے کبھی اپنی تقریروں میں اس واقعے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ اُس دور کی بات ہے، جب پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ ختم ہوچکی تھی اور فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ برطانیہ نے فلسطین پر اپنے ناجائز قبضے پر لیگ آف نیشنز سے نگران انتظامیہ کا ٹھپہ لگوا رکھا تھا۔ برطانیہ کی قابض فوج نے اپنے حقوق کیلئے آواز اُٹھانے والے فلسطینیوں کو سزائے موت دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔
3 فروری 1940ء کو فلسطین کی سپریم عرب کمیٹی کی طرف سے مفتی اعظم فلسطین مفتی امین الحسینی نے قائداعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا اور انہیں برطانوی انتظامیہ کی فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے بیس فلسطینیوں کے کوائف بھیجے۔ خط میں بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بہت سے دیگر فلسطینیوں کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں اور انہیں بھی سزائے موت دیئے جانیکا خدشہ ہے۔ مفتی امین الحسینی نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ فلسطینیوں کیساتھ ہونیوالی ناانصافی پر آواز بلند کی جائے۔ قائد اعظم نے یہ خط آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے سامنے رکھا، جس کے بعد 24 فروری 1940ء کو قائداعظم نے وائسرائے آف انڈیا لارڈ لین لتھگو کو ایک خط لکھا، جس میں اُن سے مطالبہ کیا گیا کہ فلسطینیوں کیساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں، خط میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی سپاہیوں کو کسی مسلم طاقت کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔
اس کے بعد 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا لاہور میں سالانہ اجلاس ہوا، جس میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حق میں بھی قرارداد منظور کی گئی۔ قیام پاکستان اور تحفظ فلسطین کی جدوجہد ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ 19 اپریل 1940ء کو وائسرائے لین لتھگو نے قائد اعظم کے نام خط میں انہیں یقین دلایا کہ ہندوستانی سپاہیوں کو کسی مسلم طاقت کے خلاف استعمال کرنیکا کوئی امکان نہیں، لیکن ان کے جواب میں فلسطین کا ذکر نہیں تھا۔ 29 مئی 1940ء کو قائداعظم نے وائسرائے کو ایک اور خط لکھا اور مفتی امین الحسینی کے خط کا حوالہ دیکر فلسطین میں فوجی عدالتوں کے ذریعے ہونیوالی ناانصافی بند کرنیکا مطالبہ کیا۔ وائسرائے لین لتھگو نے 27 جون 1940ء کو قائداعظم کے نام جواب میں مفتی امین الحسینی کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ یہ شخص ہمیشہ سے فلسطین میں برطانوی انتظامیہ کا مخالف رہا ہے اور وہاں ہونیوالی دہشت گردی کا ذمہ دار ہے، اس نے لکھا کہ اُس کو فلسطین واپسی کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
وائسرائے نے اپنے جواب میں قائداعظم کو تاکید کی کہ اُن کا خط مفتی امین الحسینی کیساتھ شیئر نہ کیا جائے۔ یہ قائد اعظم کیلئے ایک اشارہ تھا کہ مفتی امین الحسینی برطانوی حکومت کیلئے انتہائی ناپسندیدہ شخصیت ہیں، لیکن اس کے بعد بھی قائداعظم نے مفتی امین الحسینی کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے۔ دوسری جنگ عظیم میں مفتی امین الحسینی نے کھلم کھلا ہٹلر کی حمائت کی۔ برطانیہ نے انہیں دہشت گرد قرار دیدیا، لیکن قائد اعظم فلسطین فنڈ کے ذریعہ اُن کی مدد کرتے رہے۔ 1937ء اور 1947ء کے دوران مفتی امین الحسینی کے قائداعظم کے نام کئی خطوط موجود ہیں، جن میں قائد اعظم سے درخواست کی گئی کہ 27 رجب کو ( واقعہ معراج کا دن) یوم فلسطین منایا جائے۔ قائد اعظم نے مفتی امین الحسینی کے کہنے پر بار بار 27 رجب کو یوم فلسطین منایا۔ 27 رجب کو یوم فلسطین منا کر قائد اعظم اور مسلم لیگ بار بار مسجد اقصیٰ کیساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے رہے، کیونکہ شب معراج کو نبی کریم حضرت محمدﷺ کو خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ لیجایا گیا تھا۔
پھر جب برطانیہ اور امریکا کی کوششوں سے اقوام متحدہ کے ذریعے تقسیم فلسطین کی قرارداد منظور ہوئی اور اسرائیل قائم کیا گیا تو قائد اعظم نے تقسیم فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت پاکستان بے شک تقسیم فلسطین کو دو ریاستی حل قرار دیکر اس کی حمائت کرتی ہے، لیکن قائد اعظم کی طرف سے امریکی صدر ٹرو مین کے نام دسمبر 1947ء میں لکھے جانیوالے خط میں اسرائیل کے وجود سے انکار کو جذباتیت قرار دیکر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوتا، اسرائیل کو تسلیم کرنا قائداعظم کیساتھ غداری ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف ایک طرف تو ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو، دوسری طرف یروشلم میں امریکی سفارتخانہ قائم کرنیوالے ٹرمپ کے غزہ امن پلان کی اندھا دھند حمایت کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا فرمانا ہے کہ جو لوگ ٹرمپ کے امن پلان کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ دراصل فلسطینیوں کے خون پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ڈار صاحب کو جذباتی باتیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ دلیل سے بات کرنی چاہیئے۔ وہ ٹرمپ جو یروشلم سے امریکی سفارتخانہ واپس تل ابیب لیجانے کیلئے تیار نہیں، وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کیسے کرے گا، جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سے امریکی مبصرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ غزہ کے عوام کی اصل نمائندہ حماس ہے، جب تک حماس اس ٹرمپ پلان کی حمائت نہیں کرتی تو اس پر عملدرآمد کیسے ہوگا۔؟ فلسطینی اتھارٹی کا تعلق تو پی ایل او سے ہے۔ اگر پی ایل او ٹرمپ پلان کی حمائت اور حماس مخالفت کرئیگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ پلان سے فلسطینیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میری اطلاع یہ ہے کہ نیتن یاہو فی الحال تو آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، لیکن کچھ دن بعد وہ کہیں گے کہ اگر کچھ اہم مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو وہ بھی ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلینگے، لیکن وہ مسجد اقصیٰ کا قبضہ نہیں چھوڑیں گے۔
وہ صاحبانِ دانش جو ٹرمپ کے غزہ پلان کو مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف اہم قدم قراردے رہے، وہ یہ بتا دیں کہ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا ناجائز قبضہ ختم نہیں ہوتا، مسئلہ فلسطین کیسے حل ہوسکتا ہے۔؟ حماس کو غیر مسلح کرنے یا حماس کو ختم کر دینے سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوگا۔ 1947ء میں مغربی طاقتوں نے مفتی امین الحسینی کو دہشت گرد قرار دیکر فلسطین بدر کر دیا۔ اُن کا انتقال بیروت میں ہوا۔ انہیں غزہ میں دفن بھی نہ کرنے دیا گیا۔ کیا وہاں امن قائم ہوا۔؟ مفتی امین الحسینی کی شروع کردہ مزاحمت کا نیا نام حماس ہے، جسے اسرائیل اور امریکا دہشت گرد کہتے ہیں، اس کو فلسطین سے کیسے مائنس کیا جا سکتا ہے۔؟ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوتا، حماس ختم نہیں ہوسکتی۔ اسرائیل فلسطینیوں کی موجودہ نسل کو تو ختم کرسکتا ہے، لیکن اُن کی اگلی نسل پھر مزاحمت شروع کر دئیگی۔ مسئلہ فلسطین کا حل ٹرمپ یا ٹونی بلیئر کے پاس نہیں۔ مسئلہ فلسطین کا حل مسجد اقصیٰ کی آزادی میں ہے۔ اگر ہم مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں کرا سکتے تو کم از کم ہمیں اس مشکل وقت میں اہل غزہ اور قائد اعظم کے نظریئے کیساتھ بے وفائی تو نہیں کرنی چاہیئے۔