پیغام پاکستان سے انسجامِ ملی پاکستان تک!

پیغام.jpg

پاکستانی مذہبی تاریخ میں مختلف مکاتبِ فکر کا کردار ہمیشہ انتہائی اہم اور نمایاں رہا ہے۔ خواہ وہ پاکستان کی تخلیق کا عظیم تاریخی واقعہ ہو، یا پھر 1965ء اور 1971ء کی جنگیں ہوں، یا کوئی اور قومی مسئلہ۔۔۔۔ ہر موڑ پر ملتِ جعفریہ پاکستان نے بھرپور اور مثبت کردار ادا کیا ہے۔ تاہم گذشتہ کچھ عشروں سے ملتِ جعفریہ کا کردار زیادہ تر ردِّعمل کی صورت میں سامنے آیا ہے، جس میں ان کے حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا اور مظلومانہ موقف اختیار کرنا شامل رہا۔ یہ ان کا قانونی اور انسانی حق ہے اور ہر مکتبِ فکر کو یہ حق حاصل ہے۔ لیکن یہ حق رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک اور ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور وہ ہے مملکتِ پاکستان کے وسیع تر مفادات اور قومی یکجہتی کے تحفظ میں حصہ لینا۔ ہر مکتبِ فکر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک کے استحکام، خوشحالی اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرے اور قومی مسائل پر ایک متحدہ قوم کی طرح پیش آئے۔

حالیہ تین روزہ پاک بھارت سرحدی جھڑپوں نے ایک بار پھر تمام مکاتبِ فکر کے لیے موقع پیدا کیا کہ وہ اپنا مثبت اور تعمیری کردار پیش کریں۔ اس موقع پر ملتِ جعفریہ پاکستان۔۔۔ تمام دینی و سماجی گروپوں کے اشتراک سے۔۔۔ نے یک آواز ہو کر اپنی قومی ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اس سے بھی زیادہ خوش آئند بات یہ رہی کہ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور "ایک شیعہ دینی ادارے” کا دورہ کیا اور نہ صرف خطاب کیا بلکہ اس کی ویڈیوز کو اپنے سرکاری سوشل میڈیا پیجز پر بھی شیئر کیا۔ یہ اقدام محض کسی ایک ادارے یا شخصیت تک محدود نہیں، بلکہ درحقیقت ملتِ جعفریہ پاکستان کے ساتھ ریاستی روابط کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم اور مثبت قدم ہے۔

یہ سلسلہ دراصل ”پیغامِ پاکستان“ ڈیکلریشن سے شروع ہوا، جو کہ پاکستان کا پہلا متفقہ قومی بیانیہ ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نے انتہاء پسندی، داخلی انتشار اور تکفیریت کے خلاف باقاعدہ ایک قومی بیانیہ تشکیل دیا ہے۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے، جس پر پاکستان کو فخر ہونا چاہیئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو قومی یکجہتی (انسجامِ ملی) اور استحکامِ وطن کے لیے نہایت مفید اور ضروری ہے۔ آئی ایس پی آر کا یہ اقدام اس لحاظ سے بھی قابلِ ستائش ہے کہ یہ ادارہ ملک کے تمام مکاتبِ فکر، دینی مدارس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ روابط بڑھا کر قومی اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ دورہ ملتِ جعفریہ کے لیے ایک اعزاز اور پیش رفت کی علامت ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ اقدام اگرچہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں ہوا، لیکن اس کی اہمیت اسی قدر ہوتی، اگر یہ کسی اور شیعہ ادارے جیسے جامعۃ المنتظر یا جامعۃ الکوثر میں ہوتا۔ اسے کسی گروہ یا شخصیات کے حوالے سے نہیں، بلکہ خالصتاً قومی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیئے۔ بعض حلقے سوشل میڈیا پر جذباتی ردِّعمل دیتے ہیں۔۔۔۔ ان کے لیے موضوعات کی کمی نہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اہلِ بیت علیہم السلام کی تعلیمات میں ”طاغوت“ کی تشریح میں قانونی ریاستی اداروں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس کی واضح مثال امام سجاد علیہ السلام کی ”دعا برای عساکر الاسلام“ اور ایران کے اسلامی انقلاب میں فوج کے مثبت کردار سے ملتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے