رہبر معظم انقلاب اور یورپ سے متعلق ایک واضح حقیقت

IMG_20250926_184225_661.jpg

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے بارے میں قرارداد منظور نہ ہو پانے کے بعد امریکہ کے ساتھ ساتھ یورپ کے ناقابل اعتماد ہونے کی حقیقت بھی فاش ہو گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای گذشتہ چند برس کے دوران بار بار خبردار کر چکے ہیں اور یورپ کی جانب سے وعدہ شکنی، دھوکہ دہی اور امریکہ کی پالیسیوں کا ساتھ دینے پر زور دے چکے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ایران پر پابندیاں ختم کر دینے کی قرارداد پیش کی گئی۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت 9 اراکین نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ چین، روس، پاکستان اور الجزائر نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں یہ قرارداد منظور نہ ہو سکی اور ٹریگر میکانزم دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ ہے۔ اس میکانزم کے تحت 2015ء میں ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے سے پہلے والی پابندیاں واپس لوٹ آئیں گی۔ یہ قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کرنے سے ایک ماہ پہلے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس عمل کا آغاز کیا تھا۔ ان تین یورپی ممالک نے سلامتی کونسل کو ایک خط لکھا جس میں ایران پر پرانی پابندیوں دوبارہ بحال کرنے کی درخواست دی گئی تھی۔

یورپی ممالک کے اس اقدام سے ثابت ہو چکا ہے کہ تاریخ کے حساس ترین لمحات میں یورپ ہمیشہ امریکہ کی پیروی کرتا ہے اور اس کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے گذشتہ چند برس کے دوران رہبر معظم انقلاب نے بارہا بیان کیا تھا۔ 28 اگست 2021ء کے دن آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: "وہ (یورپی حکام) بھی وعدہ شکنی اور بداخلاقی کے لحاظ سے امریکہ سے کم نہیں ہے، وہ بھی امریکہ کی طرح ہیں لیکن زبانی کلامی باتیں کرنے میں تیز ہیں اور ہمیشہ دوسروں سے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔” رہبر معظم انقلاب کا یہ تجزیہ کسی قسم کی بدبینی پر استوار نہیں ہے بلکہ یورپ اور ایران کے درمیان تعلقات میں پیش آنے والے تجربات پر مبنی ہے۔ ان میں س


ے ایک تجربہ بورجام نامی جوہری معاہدہ ہے جس میں یورپی حکام کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ 8 مئی 2018ء کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری طور پر بورجام معاہدے سے دستبردار ہو جانے اور ایران کے خلاف کچھ نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا اور امریکہ کی اسی وعدہ شکنی کے باعث رہبر معظم انقلاب نے تین یورپی ممالک کے ساتھ اس معاہدے کو جاری رکھنے کے بارے میں خبردار کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 9 مئی 2018ء کے دن خطاب کرتے ہوئے کہا: "دو یا اڑھائی سال گزر چکے ہیں اور ہم نے اپنے ذمے تمام کام انجام دیے ہیں جبکہ یہ شخص (ٹرمپ) معاہدے سے دستبردار ہو گیا ہے اور کہتا ہے کہ میں نہیں مانتا اور یہ کر دوں گا اور وہ کر دوں گا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ این تین یورپی ممالک کے ساتھ بورجام کو جاری رکھیں گے۔ مجھے ان تین ممالک پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ان پر بھی اعتماد مت کریں، اگر معاہدہ انجام دینا چاہتے ہیں تو ان سے گارنٹی حاصل کریں، حقیقی گارنٹی، عملی گارنٹی، ورنہ کل یہ بھی وہی کام کریں گے جو امریکہ نے کیا ہے لیکن کسی اور طریقے سے۔” امریکہ کی جانب سے بورجام سے نکل جانے کے بعد یورپی ممالک نے ایران سے مذاکرات انجام دیے اور "انسٹکس” نامی منصوبہ پیش کیا جس کے تحت ایران کو اپنے سرمائے تک رسائی دی جانی تھی۔ یعنی ایران نے دنیا میں جس ملک سے بھی پیسے لینے تھے وہ پہلے کسی یورپی ملک جیسے فرانس یا برطانیہ کے پاس جانے تھے اور اس کے بعد ان ممالک نے اپنی مرضی کا سامان خرید کر ایران کو فراہم کرنا تھا۔

یہ متبادل منصوبہ بھی کئی عرصے کی تاخیر کے باوجود جامہ عمل نہ پہن سکا۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 21 مارچ 2019ء کے دن کہا: "یہ تین یورپی ملک بھی بیانیے جاری کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ایران نے بورجام میں ذکر شدہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کی ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا تم نے اس کے مطابق عمل کیا ہے؟ تم کہتے ہو کہ ایران نے بورجام میں بیان شدہ ذمہ داریاں ادا نہیں کیں، بہت اچھا، تم نے خود بورجام میں بیان شدہ ذمہ داریاں ادا کی ہیں؟ تم نے پہلے دن سے عمل نہیں کیا ہے، بعد میں جب امریکہ نکل گیا تو تم نے وعدہ کیا کہ اس کا ازالہ کریں گے لیکن بعد میں وعدہ شکنی کی، اس کے بعد پھر کچھ کہا اور پھر وعدہ شکنی کر دی۔ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ انسان خود ایک وعدہ کرے پھر اس پر عمل نہ کرے اور اس کے بعد مدمقابل کو کہے کہ تم اپنے وعدوں پر عمل کیوں نہیں کر رہے؟ حکومت نے ایک سال صبر کیا، اس کے بعد پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب بھی یونہی ہے، اب بھی بدمعاشی کے مقابلے میں مزاحمت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ بورجام کے تحت یورپی ممالک کی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ وہ امریکہ کا مقابلہ کرتے اور اسے معاہدے سے دستبردار ہونے سے روکتے لیکن انہوں نے مختلف بہانے بنا کر امریکہ کو نہیں روکا۔ انہوں نے نہ صرف امریکہ کو نہیں روکا بلکہ عملی طور پر خود بھی بورجام سے دستبردار ہو چکے ہیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے