جامعہ میں جدید مضامین کا تعارف قابل ستائش ہے، گورنر جعفر مندوخیل

جامعہ.jpg

گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے کہا ہے کہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں بعض غیر ضروری ڈیپارٹمنٹس کو ختم کرنا اور مارکیٹ کی ضرورت اور روزگار کے امکانات سے منسلک مضامین کا متعارف کرانا ایک قابل ستائش بصیرت ہے۔ کافی سوچ بچار اور باہمی مشاورت کے بعد دیگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کیلئے بھی ہم متعدد قابل تقلید مثال قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی یونیورسٹی میں دو متعلقہ ڈیپارٹمنٹس جیسے جیوفزکس کو جیالوجی، سیسمولوجی (Seismology) کو فزکس، رینیوبل انرجی کو اینوائرمنٹل سائنسز، انتھروپولوجی (Anthropology) کو سوشیالوجی اور کامرس کو انسٹیٹیوٹ آف منجمنت سائنسز میں ضم کرنا بذات خود دانشمندانہ فیصلے ہیں۔ اس کے برعکس ان ضروری مضامین جیسے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) وغیرہ کا یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار ڈیپارٹمنٹ کا آغاز موجودہ تقاضوں اور ابھرتی ہوئی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی ایک انوکھی مثال ہے۔ ایسے انقلابی اقدامات ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کو مؤثر طریقے سے کامیاب اور محفوظ بناتے ہیں۔

گورنر مندوخیل یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظہور بازئی اور ان کی پوری ٹیم کی کارکردگی اور وژن کو سراہتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا کہ عصر حاضر کے تقاضوں اور یونیورسٹی کے مفاد میں اٹھائے گئے اقدامات سے وسائل کے استعمال میں بہتری آئیگی اور تعلیم کے شعبے کی بنیاد مضبوط ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آجکل اسٹوڈنٹس بھی فیوچر ویلیو اور روزگار کے مواقع پر مبنی کورسز کا انتخاب کرتے ہیں تاہم ہماری یونیورسٹیوں اور ان کے کیمپسز میں ایک تلخ حقیقت موجود ہے کہ بعض ڈیپارٹمنٹس میں اساتذہ کی تعداد طلباء سے زیادہ ہے۔ یہ وسائل کے ضیاع کا باعث ہے۔ گورنر بلوچستان نے کہا کہ موجودہ حکومت مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہے۔ مادری زبانیں ہماری قومی پہچان ہیں۔ ان کی حقانیت ماں کی لازوال ممتا کی وجہ سے قائم ہے اور مادری زبان ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت کی منتقلی کا طویل سلسلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی برس سے کالجز میں بی ایس کورسز شروع کرانے کے بعد یونیورسٹی آف بلوچستان کے لینگویج ڈیپارٹمنٹس اردو، بلوچی، پشتو، براہوی اور فارسی میں طلباء کی تعداد کم ہو چکی ہے، لہٰذا ہم تمام لینگویجز کیلئے ایک مشترکہ "انسٹیٹیوٹ آف لینگویسٹک” بنا رہے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ یہ تمام لینگویجز کے درمیان روابط بڑھانے کا معتبر وسیلہ بھی بنے گا۔ گورنر مندوخیل نے کہا کہ ہم من حیث القوم ترقی اور ارتقاء کے سفر میں دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں پیچھے رہ چکے ہیں۔ سردست اس گلوبل ویلیج میں مختلف زبانوں اور گلوبل سیویلائزیشن میں ہم آہنگی اور یکجہتی کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے لہٰذا ہمارے پالیسی میکرز اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترقی یافتہ زبانوں میں قیمتی علمی و سائنسی مواد کو اپنی مادری زبانوں میں ترجمہ کرانے کیلئے جامع حکمت عملی بنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے