ایران کی جانب یوٹرن

IMG_20250919_063054_261.jpg

حماس کے مرکزی سیاسی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے مقصد سے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے نے ایک بار پھر اسلامی ممالک کو ایک جگہ جمع ہونے پر مجبور کر دیا تاکہ یوں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اپنے موقف کو ایکدوسرے سے قریب کر سکیں۔ چنانچہ اتوار کی شام قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب اور اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہوا۔ عرب اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے پیش کیے گئے مسودے پر پیر کے دن دوحہ میں اسلامی سربراہی اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ دوحہ اجلاس میں اپنے خطاب میں قطری وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اپنے ملک پر حالیہ اسرائیلی حملے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ وحشیانہ کارروائی بین الاقوامی قوانین اور قطر کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔

الثانی نے مزید کہا کہ اسرائیلی جارحیت ایسے وقت کی گئی جب دوحہ غزہ میں جنگ بندی اور دشمنی کے خاتمے پر مذاکرات کی میزبانی کر رہا تھا اور یہ حملہ صرف قطر کی سرزمین پر نہیں بلکہ ثالثی اور امن کی کوششوں کے اصولوں پر کیا گیا ہے۔ قطری عہدیدار نے بین الاقوامی برادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو جوابدہ نہ ٹھہرانے میں ناکامی نے اسے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کی ترغیب دلائی ہے اور اس کے اقدامات نے امن کے لیے جاری واحد مذاکرات کو ناکام بنا دیا ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پر دوہرے رویے روکنے اور اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت پر خاموش نہ رہنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کے ادراک کے بغیر خطے میں کبھی بھی سلامتی اور امن نہیں دیکھا جا سکے گا۔ قطری وزیر اعظم نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کا ملک جنگ کو روکنے کے لیے مصر اور امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا اور اسرائیل کی مذمت اور قطر کی حمایت کے لیے سلامتی کونسل میں بین الاقوامی اتفاق رائے کو سراہتا ہے۔

العربی الجدید اخبار کے مطابق قطر کے خلاف جارحیت کو خطے میں تنازعات کی نوعیت میں ایک خطرناک تبدیلی قرار دیا گیا ہے اور ایسے فیصلے متوقع ہیں جو غزہ کے خلاف جارحیت بند ہونے تک صیہونی رژیم سے سفارتی اور اقتصادی تعلقات منقطع ہونے کا باعث بن سکتے ہیں۔ علاقائی تجزیہ کاروں نے امریکی نیوز چینل سی این این کو بتایا کہ عرب خلیجی ریاستوں کی جانب سے ایسے آپشنز پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے جن سے علاقائی اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہو اور مزید اسرائیلی حملوں کو روک سکیں۔ حماس کے ایک رہنما عزت الرشق نے بھی اتوار کے روز ایک بیان میں کہا: "اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ کو خطے میں پھیلانے، مشرق وسطی میں جغرافیائی تبدیلیاں لانے اور اس پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ نیتن یاہو کے ان اقدامات نے خطے کو شدید بحرانی صورتحال کے قریب لا کھڑا کیا ہے۔ لہذا عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ صیہونی رژیم کے خلاف ڈیٹرنس ایجاد کریں اور اسے گوشہ نشینی کا شکار کر کے فاشسٹ مجرمین کی سرکردگی میں چلنے والی اس رژیم کی سرکشی کو لگام دینے کی کوشش کریں۔”

دوحہ اجلاس، غزہ کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اس اسلامی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے تین ہفتے بعد ہوا منعقد ہوا ہے جس میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اسرائیل کے جرائم پر عالم اسلام کی خاموشی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ تاہم مصالحت پسند عرب حکمران جو حالیہ برسوں میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر گامزن تھے، نے تہران کے انتباہات کو نظر انداز کیا اور ہمیشہ کی طرح فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کاغذی بیانات جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ البتہ قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے نے عرب حکمرانوں کو چند ہفتے قبل ایرانی وزیر خارجہ کی باتوں کو اچھی طرح سے سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے 2 ستمبر کے اجلاس میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا تھا: "ہمیں ایک ایسی رژیم سے اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات منقطع کر دینے چاہییں جس کے ہاتھ ہزاروں بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس رژیم کے ساتھ توانائی اور سامان کی برآمدات کو محدود کرنا چاہیے، اسرائیل کے خلاف اجتماعی پابندیاں لگانی چاہیئں اور ثقافتی، کھیلوں اور تعلیم کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ جرم کے سامنے غیر جانبداری، غیر جانبداری نہیں بلکہ اس جرم میں ایک قسم کی شراکت ہے۔”

جب غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے ایران پر فوجی جارحیت کے صرف دو ماہ بعد ایرانی وزیر خارجہ نے یہ انتباہی بیانات دیے تو اس وقت عرب حکمرانوں نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا تھا جبکہ کچھ نے ان بیانات کو خطے میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور طاقت کے توازن کو بحال کرنے کی تہران کی کوشش کے طور پر دیکھا تھا۔ تاہم دوحہ پر حالیہ اسرائیلی حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ انتباہات بے بنیاد نہیں تھے اور ان کا مقصد صرف مظلوموں کی تصویر کشی پیش کرنا نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے غاصب صیہونی رژیم سے درپیش خطرات کی حقیقت کو اجاگر کرنا تھا۔ گذشتہ چند برسوں میں عرب ممالک یہ خیال کرتے رہے کہ اسرائیل کی دھمکیاں صرف فلسطینی علاقوں تک ہی محدود رہیں گی اور تل ابیب کے ساتھ معمول پر آنے والے تعلقات ان کی سلامتی کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ یہ یقین اس بات کا باعث بنا کہ خطے کے سیاسی رہنما اور سربراہان اسرائیل کے اقدامات کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہو جائیں۔ تاہم قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے اس بھرم کو مکمل طور پر توڑ دیا اور ثابت کر دیا کہ تل ابیب کی دھمکیوں کی کوئی سرحد نہیں ہے اور نہ ہی وہ مقبوضہ علاقوں تک محدود ہیں۔ اس واقعہ نے واضح طور پر اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ سالوں اور مہینوں کے دوران اسلامی ممالک کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے پھیلاؤ کے خطرات کے بارے میں جو انتباہات دیے تھے وہ پوری طرح درست تھے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے فوری طور پر خطے میں وسیع پیمانے پر تزویراتی نتائج برآمد ہوئے ہیں اور بہت سے عرب ممالک، جنہوں نے پہلے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر علاقائی سلامتی کے بارے میں خود کو یقین دلایا تھا اب اپنی سلامتی کے بارے میں شدید خدشات کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی رژیم کو روکنے کے لیے اجتماعی اور ہم آہنگ اقدام کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے اور بصورت دیگر اسلامی ممالک میں سے کوئی بھی تل ابیب کی ممکنہ جارحیت سے محفوظ نہیں رہے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ عرب حکمران، جو پہلے ایک متحد امت مسلمہ کے قیام پر یقین نہیں رکھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان موجودہ تقسیم اس اتحاد کو روکتی ہے، اب سمجھ چکے ہیں کہ صیہونی رژیم سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے اور عالم اسلام کی سلامتی کے تحفظ کے لیے اسلامی اتحاد ہی واحد موثر راستہ ہے۔ اگرچہ مغرب کی وسیع عسکری اور سیاسی حمایت اسرائیل کے غزہ پر دو سالہ حملوں کے تسلسل کی ایک وجہ تھی لیکن عرب ممالک کی مہلک خاموشی نے بھی غاصب صہپومہ رژہ، کو نسل کشی جاری رکھنے کی ترغیب دینے میں اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ نہ صرف ان ممالک نے فلسطینیوں کی مدد نہیں کی بلکہ بعض مصالحتی حکمرانوں نے خفیہ طور پر تل ابیب کو فوجی اور مالی امداد فراہم کرکے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو تباہ کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ اب جب کہ اسرائیل کے دھمکی آمیز اقدامات عرب دنیا کے مرکز تک آن پہنچے ہیں تو ان ممالک کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی خوشامد صیہونی رژیم کی حوصلہ افزائی کرے گی اور اگر عرب حکمران یونہی خاموش تماشائی بنے رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کا پیش کردہ "گریٹر اسرائیل” منصوبہ حقیقت کا روپ دھار لے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے