کیا عمران خان جیل سے الیکشن لڑ سکیں گے اور ماضی میں کن سیاستدانوں نے ایسا کیا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے الیکشن شیڈول جاری کرنے کے بعد ملکی سیاست میں کچھ ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ ملک کی سیاسی جماعت آئندہ برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے کمر کس رہی ہیں۔
کہیں کوئی جماعت اپنے پارٹی امیدواروں کے انٹرویو اور نامزدگیوں کی جانچ پڑتال کے عمل سے گزر رہی ہے تو کوئی اپنے امیدواروں کی فہرست ترتیب دینے میں مصروف ہے۔
کہیں کوئی سیاسی نعرے لگائے جا رہے ہیں تو کوئی سیاسی جماعت موجودہ حالات میں زیرِ عتاب آنے کی بات کر رہی ہے۔
بدھ کو تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور جماعت کے بانی عمران خان تین حلقوں سے عام انتخابات 2024 میں حصہ لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اسلام آباد، لاہور اور میانوالی کے حلقوں سے الیکشن لڑیں گے اور اس کے لیے ان سے کاغذات نامزدگی جیل سے ہی سائن کروا لیے جائیں گے۔
اسی طرح پی ٹی آئی کی سرگرم اور جیل میں بند کارکن صنم جاوید نے آئندہ عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صنم جاوید کے والد جاوید اقبال نے منگل کو لاہور ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید نے آئندہ عام انتخابات اسی حلقے سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے مریم نواز کھڑی ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ممکن ہے صنم اپنے کاغذات الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پی پی 150 سے رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) کی نشست کے لیے جمع کرائیں گی۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کارکن صنم جاوید جو اس وقت نو مئی کے واقعات کے مقدمات میں جیل میں بند ہیں کی جانب سے جیل سے الیکشن لڑنے کا اعلان سامنے آنے کے بعد عوامی حلقوں میں اس بحث نے جنم لیا ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی شخص جیل سے الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہے۔
اس سوال کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ پیدا ہو گئی ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر اہم رہنما جن میں شاہ محمود قریشی، چوہدری پرویز الہی، یاسمین راشد، محمود الرشید، اعجاز چوہدری، فردوس شمیم نقوی، عمر سرفراز چیمہ، حلیم عادل شیخ، فرخ حبیب سمیت درجنوں دیگر رہنما نو مئی کے بعد متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جیل میں قید ہیں۔
کیا پاکستان میں کوئی شخص جیل سے الیکشن لڑ سکتا ہے؟
ماہرِ قانون اور عمران خان کے وکیل علی ظفر نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد کہا کہ سابق وزیر اعظم کی نااہلی کی سزا ختم کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر ہوچکی ہے۔ انھیں امید ہے کہ جلد توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل ہوجائے گی جس کے بعد وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔
مگر کیا کوئی شخص جیل سے الیکشن لڑ بھی سکتا ہے، اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے قانونی ماہرین اور سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا۔
ماہر قانون عارف چوہدری نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی الزام میں جیل میں بند ہے اور اب تک اسے مجرم قرار نہیں دیا گیا تو وہ جیل میں بیٹھ کر الیکشن لڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیل ایک طرح کی کسٹڈی یعنی سپرداری ہوتی ہے۔
عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ جیل میں موجود شخص جب تک سزا یافتہ نہیں ہوتا وہ اس وقت تک ایک آزاد شہری کی طرح الیکشن لڑ سکتا ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا اس بارے میں کہنا تھا کہ بظاہر جیل میں موجود کسی ملزم کے الیکشن لڑنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے تاہم یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے کیونکہ اس کا دار و مدار اس پر عائد الزام کی نوعیت سے ہے۔ اگر وہ کسی فوجداری مقدمے میں ملزم ہے تو صورتحال مختلف ہو سکتی ہے اور اگر وہ کسی دیوانی مقدمے کا ملزم ہے تو مختلف۔
ماہر قانون سعد رسول نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت جہاں ہر شخص کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق دیا گیا ہے تو اس کے تحت الیکشن لڑنے اور ووٹ دینے کا حق میں اس کے تحت ہی ملتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں اس طرح کی صورت میں الیکشن لڑنے کی کوئی ممانعت درج نہیں ہے تو لہذا جب آئین میں ایسی کوئی ممانعت نہ ہو تو اس کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا جاتا ہے یعنی اگر پاکستان کے قانون یا الیکشن ایکٹ 2017 میں ایسی کوئی ممانعت ہونا ضروری ہے ورنہ قانون یہ تصور کرتا ہے کہ اگر قانون یا آئین میں کوئی ممانعت نہیں تو کسی بھی شخص کے جیل سے بیٹھ کر الیکشن لڑنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تا وقت کہ وہ اس وقت کسی جرم میں مرتکب قرار نہ پایا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق اب تک الیکشن ایکٹ 2017 میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی پاکستان کے مختلف سیاسی رہنماوں نے جیل سے بیٹھ کر الیکشن لڑا ہے۔
ماضی میں کن کن سیاستدانوں نے جیل سے الیکشن لڑا
اگر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو سنہ 1970 کے انتخابات میں مولانا کوثر نیازی جیل میں تھے اور انھوں سے جیل سے ہی نہ صرف الیکشن لڑا تھا بلکہ وہ جیتے بھی تھے۔
اسی طرح چوہدری ظہور الہی کی سوانح عمری کے مطابق سنہ 1977 میں وہ بھی جیل میں تھے اور انھوں نے جیل سے بیٹھ کر الیکشن لڑا تھا۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے ان کی انتخابی مہم چلائی تھی۔
سنہ 1985 میں لاہور سے تعلق رکھنے شیخ روحیل اصغر اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ شکیل اختر خاندانی کی دشمنی کی بنا پر قتل کے مقدمے میں جیل میں تھے اور دونوں بھائیوں نے جیل سے رکن قومی اسمبلی اور رکن صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اور جیتے تھے۔
سنہ 2002 کے الیکشن میں جھنگ سے سپہ صحابہ کے رہنما مولانا اعظم طارق نے جیل سے الیکشن لڑا تھا اور جیتا تھا۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انھیں نومبر 2002 میں رہا کیا گیا۔
پرویز مشرف کے دور میں جب شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنایا گیا تو اس وقت مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما جاوید ہاشمی جیل میں قید تھے اور وہ وہاں سے شوکت عزیز کے مقابلے میں وزیر اعظم کے امیدوار تھے۔
اسی طرح جب سنہ 2018 میں نیب کی جانب سے صاف پانی کرپشن کیس میں مسلم لیگ کے راولپنڈی سے رہنما راجا قمر اسلام کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا تو ان کے کم سن بیٹے اور بیٹی نے ان کے پارٹی ٹکٹ جمع کروائے تھے انتخابی مہم چلائی تھی۔
قمرالاسلام نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 59 سے ناراض لیگی رہنما چوہدری نثار علی خان کے مدمقابل ن لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا تھا۔
اگر کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد مجرم قرار دیا جائے تو کیا ہو گا؟
اس پر عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ جب جیل میں موجود کسی شخص کے کاغذات نامزدگی داخل ہو جائیں اور اس کی سکروٹنی یعنی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہو جائے تو وہ الیکشن لڑنے کا اہل ہوتا ہے۔ تاہم اگر وہ اس دوران کسی جرم کا مرتکب پایا گیا تو الیکشن کے بعد اس پر کسی کی جانب سے پٹیشن داخل کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کے کاغذات کے داخل ہونے اور سکروٹنی کے عمل کے بعد اگر اس کا نام الیکشن لڑنے والے امیدواروں میں آ جاتا ہے تو اس کے بعد وہ مجرم قرار دیا جائے تو اس سے الیکشن کے عمل کے بعد اثر پڑ سکتا ہے وہ بھی اگر کوئی اس بارے میں پٹیشن دائر کر دے۔
سعد رسول کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اس میں مقدمے کی نوعیت اس حد تک اثر انداز ہوتی ہے جس حد تک اس مقدمے میں لکھا گیا ہو مثال کے طور پر اگر کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد کوئی شخص اس بات کا مجرم قرار دیا جاتا ہے کہ اس نے گیس کا بل نہیں بھرا تو قانون اور الیکشن ایکٹ کے مطابق اس جرم کی سزا درج ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص ملزم ہو اور اس کے کاغذات نامزدگی منظور ہو جانے کے بعد اگر وہ مجرم قرار دے دیا جائے تو اس کے کاغذات نامزدگی کو الیکشن ٹریبونل کے ذریعے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
عارف چوہدری کا کہنا ہے کہ جیل سے الیکشن لڑنے کی صورت میں امیدوار کو کوئی سہولت نہیں دی جاتی اور اس کے حامی ہی اس کی انتخابی مہم چلاتے ہیں۔
سعد رسول بھی اس بارے میں کہتے ہیں کہ جیل سے الیکشن لڑنے والے کو کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔