طاقتوروں کے کلب میں باقی رہنے کی ناکام کوشش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دستخط کے ذریعے ملک کے محکمہ دفاع کا نام تبدیل کر کے "محکمہ جنگ” رکھ دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ، جو جنگی علاقوں سے بہت دور اور محفوظ رہا تھا، نے روس کو "ایران میں فتح کے پل” کے ذریعے جرمن فوج کا مقابلہ کرنے اور چین کو جاپان پر فتح حاصل کرنے میں مدد فراہم کر کے نیز شکست خوردہ جاپان پر ایٹم بم برسا کر دنیا کی سپرپاور کے طور پر سامنے آیا۔ امریکہ نے اسی بنیاد پر 1947ء میں یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہ وہ دنیا کی برتر طاقت ہے اور نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کے لیے جنگ کی ضرورت نہیں ہے، اپنے محکمہ جنگ کا نام تبدیل کر کے "محکمہ دفاع” رکھ دیا تھا۔ اب ٹرمپ حکومت کی جانب سے اس محکمے کا نام تبدیل کر کے دوبارہ "محکمہ جنگ” رکھ دینا محض دکھاوے کی کارروائی نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں کو کمزور کرنے اور برتر طاقت کے عنوان سے امریکہ کی حیثیت برقرار رکھنے کی خاطر دنیا میں نئی جنگیں شروع کرنے کی حکمت عملی ہے۔ امریکہ نے ایران پر حملہ کیا، وینزویلا پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے، یوکرین کے ذریعے روس سے لڑ رہا ہے اور کم از کم تائیوان کی مدد کر کے چین کے ساتھ جنگ کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ جنگ اور حریف ممالک کو کمزور کرنا، برتر طاقت کی حیثیت سے باقی رہنے کے لیے امریکہ کا آخری حربہ ہے۔
امریکی صدر نے محکمہ دفاع کا نام بدل کر "محکمہ جنگ” رکھنے کے اقدام کو "طاقت اور فتح کا پیغام” قرار دیتے ہوئے کہا: "ہمارے پاس دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہے، بہترین سازوسامان اور سازوسامان بنانے والی بہترین فیکٹریاں ہیں لہذا کوئی ملک ہمارا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔” نام کی تبدیلی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی صریح موقف اور جنگی جذبے کی طرف واپسی کی علامت ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے اس بارے میں کہا کہ "ہم صرف دفاع کرنے کی بجائے حملہ کرنے جا رہے ہیں۔” تاہم مخالفین نے نام کی اس تبدیلی کو وسائل کا ضیاع، امریکی کمزوری کی علامت اور زوال پذیر سپر پاور کی جانب سے اپنی حیثیت پر زور دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔ یاد رہے ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت پینٹاگون کو باضابطہ طور پر "محکمہ جنگ” کا عنوان استعمال کرنے کی اجازت دی اور اسے "طاقت اور فتح کا پیغام” قرار دیا۔ "یہ ایک بہت ہی اہم تبدیلی ہے کیونکہ یہ زاویہ نظر کے بارے میں ہے… یہ واقعی جیتنے کے بارے میں ہے”۔ ٹرمپ نے مزید کہا: "یہ خاص طور پر دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک بہت ہی مناسب نام ہے۔” ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "محکمہ جنگ” کا عنوان ایک مختلف نفسیاتی اور سیاسی تاثر رکھتا ہے اور صرف "دفاع” کے بجائے مخالفین پر قابو پانے کی امریکہ کی صلاحیت کا ایک فعال پیغام بھیجتا ہے۔ وزیر دفاع پٹ ہیگسیٹ جو اب خود کو سیکرٹری آف وار کہتے ہیں، نے ٹرمپ کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے فوری طور پر کہا: "ہم صرف دفاع کی بجائے حملہ کریں گے اور محدود کر دینے والے قوانین کی بجائے زیادہ سے زیادہ قتل کریں گے۔” ایسا بیان جو فوجی طاقت کے جارحانہ پہلو پر زور دینے کے لیے حکومت کے انتخاب کی نشاندھی کرتا ہے۔
اس اعلان کے فوراً بعد ہی ایک زبردست بیوروکریٹک مہم کا آغاز ہو گیا: پینٹاگون کے تمام راستوں پر موجود بورڈز کو تبدیل کر دیا گیا، سرکاری ویب سائٹ کا ایڈریس war.gov پر منتقل کر دیا گیا اور سوشل میڈیا پر نام تبدیل کر دیے گئے۔ تاہم ناقدین نام کی تبدیلی کے بارے میں اتنے پرامید نہیں ہیں۔ 1947ء سے پہلے بھی اس محکمے کا نام محکمہ جنگ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جو امریکہ کے سپر پاور بننے کے آغاز سے منسلک ہے۔ 1789ء سے محکمہ جنگ چلا آ رہا تھا جس کی ذمہ داری امریکی زمینی افواج کے انتظامی امور سنبھالنا تھا۔ اسی طرح انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں محکمہ جنگ امریکی فوجی کمانڈ اور پالیسی سازی کا مرکز تھا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہونے اور اس میں امریکہ کا اپنا کردار ادا کرنے کے بعد بری فوج، بحریہ اور بعد میں فضائیہ کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت محسوس ہوئی لہذا 1947ء کا نیشنل سیکورٹی ایکٹ بنایا گیا اور دو سال بعد 1949ء میں نیشنل سیکیورٹی ایکٹ میں ترمیم کے ساتھ محکمہ دفاع نے جنم لیا۔ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) دنیا کا سب سے بڑا فوجی انتظامی ڈھانچہ بن گیا جس میں لاکھوں سویلین ملازمین، ایک ملین سے زیادہ فعال ڈیوٹی والے فوجی اور ایک ایسا بجٹ جو دنیا کے بہت سے ممالک کے کل بجٹ سے زیادہ تھا۔ محکمہ جنگ کو اس لیے علامتی طور پر محکمہ دفاع میں تبدیل کیا گیا اور لفظ "جنگ” کی جگہ لفظ "دفاع” استعمال کیا گیا تاکہ دوسری جنگ عظیم جیتنے کے بعد امریکہ کا نیا چہرہ پیش کیا جائے اور اسے "امن کی محافظ سپرپاور” کے طور پر متعارف کروایا جائے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کا موجودہ ایگزیکٹو آرڈر وزیر دفاع پٹ ہیگسیٹ کو تمام سرکاری خط و کتابت میں خود کو "سیکرٹری آف وار” کے طور پر متعارف کروانے کی اجازت دیتا ہے جبکہ کانگریس کی جانب سے حتمی منظوری سے پہلے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے "محکمہ جنگ” صرف ثانوی نام کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حتی اس صورت میں بھی 1949ء کا وہ قانون جس کے ذریعے "محکمہ دفاع” کو سرکاری نام کے طور پر بیان کیا گیا تھا اب بھی نافذ العمل ہے اور کسی بھی مستقل تبدیلی کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہو گی۔ خاص طور پر یہ کہ لاکھوں بین الاقوامی دستاویزات، نشانات اور ڈھانچے کو اپڈیٹ کرنے کے اخراجات کا تخمینہ لاکھوں یا اربوں میں ہے۔ سینٹ کے اکثریتی رہنما میک کانل نے کل متنبہ کیا کہ اگر ہم اسے "محکمہ جنگ” کہتے ہیں تو ہمیں درحقیقت ضروری وسائل مختص کرنے چاہئیں ورنہ یہ محض ایک خالی اشارہ ہو گا۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ٹمی ڈاکورت نے کڑی تنقید کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا بہتر نہیں کہ یہ رقم فوجی خاندانوں پر یا سفارت کاری پر خرچ کی جائے؟ پینٹاگون کے اندر عملے کے درمیان الجھن اور غصے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ منصوبے کے دائرہ کار کو بیان کرنے کے لیے میڈیا کی طرف سے "ایک ملین چھوٹی پریشانیاں” جیسی وضاحتیں استعمال کی گئی ہیں۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ روسی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اس اقدام کو زیادہ ایمان دارانہ اور "مناسب” قرار دیا ہے جس کی بازگشت ماسکو سے وابستہ کچھ خبر رساں اداروں نے کی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار اور تھنک ٹینکس اس بات پر متفق ہیں کہ محض نام کی تبدیلی سے امریکہ کی آپریشنل صلاحیتوں یا تزویراتی توازن میں بہتری نہیں آئے گی۔ RUSI تھنک ٹینک کے والٹر لڈوِگ نے جمعہ کے روز ایک تجزیے میں لکھا: "محکمہ جنگ کو دوبارہ متعارف کروانے سے امریکہ چھوٹا نظر آتا ہے، مضبوط نہیں”۔ اسی طرح انہوں نے اس اقدام کو "غلطی سے حکمت عملی سمجھی جانے والی علامتی کاروائی” قرار دیا ہے۔ فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) کے بریڈ بومن نے بھی واضح طور پر اس بات پر زور دیا کہ "نام بدلنے سے بحرالکاہل کے میدان جنگ جیسے امور میں فوجی برتری کے زوال کا مسئلہ حل نہیں ہوتا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیا ہی بہتر ہوتا اگر یہ بورڈز تبدیل کرنے کی بجائے فوجیوں کی تربیت اور مسلح کرنے پر خرچ کی جاتی۔ تاہم اس نام کی تبدیلی کے حامی ایک اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ: "دفاع” ایک مبہم اصطلاح ہے جو پینٹاگون کے مشن کو موسمیاتی اور شہری کارروائی جیسے شعبوں تک پھیلانے کی اجازت دیتی ہے۔ "جنگ” کو واپس لانا محض ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے کہ ملک کی بنیادی تنظیم کو "لڑائی اور جیتنے” کے لیے منظم کیا گیا ہے۔ محکمہ جنگ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فوج کے کردار کو واضح کرنے میں مدد ملے گی۔