حکومتی فیصلہ قبول نہیں، اسلامی مزاحمت ہتھیار نہیں پھینکے گی، حزب اللہ لبنان

n01228678-b.jpg

حزب اللہ لبنان کی ایگزیکٹیو کونسل کے سربراہ شیخ علی دعموش نے گذشتہ روز نماز جمعہ کے خطبے میں لبنان کے تازہ ترین حالات بالخصوص امریکی مداخلت کے تناظر میں خطاب کرتے ہوئے کہا: "حکومت کی طرف سے مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا غلط فیصلہ نہ صرف قومی منشور کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی حمایت سے عاری اور نامعقول بھی ہے۔” شیخ علی دعموش نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "جس ملک کی سرزمین پر دشمنوں کا قبضہ ہے، جس کے عوام پر روزانہ حملے ہوتے ہیں، جس کے لوگوں کو اپنے گاؤں اور گھروں کی جانب واپس لوٹنے سے روکا جاتا ہے اور جس کے بچے دشمن کی قید میں ہیں، اس ملک کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی حکومت اسے قومی طاقت کے ایک اہم ترین عنصر یعنی مزاحمت سے محروم کرنے کا فیصلہ کرے۔” انہوں نے مزید کہا: "یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی حکومت جو اپنے عوام کو ایک وحشی دشمن سے بچانے سے قاصر ہو اور وہ بھی جنگ کے دوران ملک کو مزاحمتی ہتھیاروں سے محروم کر دے؟ کیا اس کا مطلب منطق، عقل اور قومی مفادات سے دور ہو جانا نہیں ہے؟ منطق، عقل اور قومی مفادات کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی ملک طاقتور ہے  تو اس کی پہلی ذمہ داری اپنے طاقت کے عناصر کی حفاظت اور ان سے بہرہ مندی ہے، نہ یہ کہ انہیں نابود کر دے۔”

شیخ علی دعموش نے واضح کیا: "آج ہمیں ملک میں ایک ایسی حکومت کا سامنا ہے جو اپنے عوام اور معاشرے کے مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے بیرونی طاقتوں کے مفادات کی تکمیل اور ان کے احکامات کو نافذ کر رہی ہے۔ حکومت نے مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ نامعلوم نتائج کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خطرناک بھی ہے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے سے دستبردار ہو جائے۔” حزب اللہ لبنان کی اجرائی کونسل کے سربراہ نے کہا: "حکومت نے اپنے اس فیصلے کے ذریعے صیہونی دشمن کے ساتھ مسئلے کو لبنانی عوام کے اندرونی مسئلے میں تبدیل کر دیا ہے اور یوں خطرات، پیچیدگیوں اور مسائل سے بھرپور قومی عمل کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ لبنانی عوام کے درمیان بہت سے معاملات پر سیاسی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے فیصلے نے عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کو مزید گہرا کر دیا ہے اور انہیں ایکدوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ جبکہ حکومت کی ذمہ داری عوام کو متحد کرنا ہے نہ کہ ان میں اختلافات بڑھانا۔”

انہوں نے اسلامی مزاحمت کو لبنان کا قومی تشخص قرار دیتے ہوئے کہا: "مزاحمت ایک قومی اور سماجی تشخص اور جہاد کی علامت ہے جو خون، قربانیوں اور شہداء سے تشکیل پائی ہے اور کوئی بھی اسے کسی فیصلے یا طریقہ کار سے مٹا یا غیر مسلح نہیں کر سکتا۔ مزاحمت ایک شناخت، ایک ثقافت اور ایمان اور عقیدے پر مبنی ایک عملی احساس ہے۔ مزاحمت مکمل طور پر ایک قومی ایشو ہے اور قومی مفاد سے جڑی ہوئی ہے۔” شیخ علی دعموش نے مزید کہا: "مزاحمت کے ہتھیار نہ تو خانہ جنگی میں استعمال ہونے والی ملیشیا کے ہتھیار ہیں اور نہ ہی قانونی حدود سے باہر ہتھیار ہیں۔ کوئی بھی مزاحمت کے ہتھیاروں کے بارے میں یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ قوم کے خلاف ہیں جبکہ حقیقت میں وہ لبنانی قوم کی خدمت میں ہیں۔” انہوں نے تاکید کی: "مزاحمت کے ہتھیار وہی ہیں جنہوں نے ہماری سرزمین کے ایک بڑے اور قیمتی حصے کو آزاد کروایا اور گذشتہ چار دہائیوں سے دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا، لبنان کی حفاظت کی، دشمن کو شکست دی اور ملک پر صیہونیوں کا غاصبانہ قبضہ ہونے سے روکا۔ ایسے ہتھیار جنہیں صیہونی دشمن کی کوئی جنگ بھی ختم نہ کر پائی لہذا وہ دشمن کے چھوٹے ہتھکنڈوں سے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے