عرب دنیا ہوشیار باش

5-52.jpg

 

غاصب صیہونی رژیم کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کے روز اسرائیلی چینل آئی 24 پر ٹی وی انٹرویو میں کھلے عام نام نہاد "گریٹر اسرائیل” منصوبے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا، یہ منصوبہ بائبل کی تشریحات اور توسیع پسندانہ نظریات سے جڑا ہوا ہے جسے صیہونی کابینہ کے انتہاپسند دائیں بازو کے حلقے گذشتہ طویل عرصے سے زور دیتے آئے ہیں۔ اس منصوبے کو "ایک تاریخی اور روحانی مشن” کے طور پر بیان کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ وہ اس آرزو سے جذباتی طور پر وابستہ ہیں اور اسے یہودیوں کے لیے نسل در نسل فرض سمجھتے ہیں۔ اس نے کئی ممالک کے ساتھ بات چیت کا بھی اعلان کیا جو فلسطینیوں کی میزبانی کر سکتے ہیں۔ یہ موقف گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصے کے دوران صہیونزم تحریک کے مختلف رہنماؤں کے بیانات کی یاد تازہ کرتا ہے اور "تورات اینڈ لینڈ انسٹی ٹیوٹ” جیسے اداروں کے ان دعووں کے عین مطابق ہے جن میں مشرق میں دریائے فرات سے جنوب میں دریائے نیل تک "تاریخی اسرائیل” کی سرحدیں کھینچی گھی ہیں۔ اس منصوبے کی جڑیں یہودیوں کے اعتقادات میں پیوستہ ہیں جس کے مطابق وہ "وعدہ شدہ سرزمین” کو مشرق وسطیٰ کے بڑے حصے پر مشتمل سمجھتے ہیں۔

 

بنجمن نیتن یاہو اور اس کے حامی جس نقشے کا حوالہ دیتے ہیں اس میں تمام تاریخی فلسطین، لبنان، اردن، شام کا 70 فیصد سے زیادہ، عراق کا نصف، سعودی عرب کا ایک تہائی، مصر کا ایک چوتھائی حصہ اور کویت کا کچھ حصہ شامل ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ خیال سب سے پہلے 2016ء میں "جیوش ہوم پارٹی” کے رہنما اور موجودہ صیہونی کابینہ کے وزیر خزانہ اور اس وقت کی کینسٹ کے رکن بیزلیل اسموٹریچ نے اٹھایا تھا۔ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس نے اسرائیل کی سرحدوں کو دمشق تک پھیلانے اور چھ عرب ممالک کے مختلف حصوں پر کنٹرول کا مطالبہ کیا تھا۔ اسموٹریچ جو اب وزیر خزانہ ہے اور مذہبی صہیونی پارٹی کا رکن بھی ہے، نے مارچ 2023ء میں پیرس میں "سرزمین اسرائیل” کا نقشہ بھی پیش کیا تھا جس میں تاریخی فلسطین اور اردن بھی شامل تھے۔ "گریٹر اسرائیل” منصوبہ لیکود پارٹی کے رہنما میناخم بیگن کی وزارت عظمیٰ کے دوران ایک سیاسی پالیسی بن گیا تھا اور اس نے مغربی کنارے کے لیے "یہودا اور سامریہ” جیسے بائبل کے ناموں کا استعمال کرکے ان علاقوں میں یہودی آباد کاری کی راہ ہموار کی۔

 

صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ بیان پر عرب ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

سعودی عرب: ملک کی وزارت خارجہ نے "گریٹر اسرائیل” منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صیہونی رژیم کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی مثال قرار دیا ہے۔ ریاض نے عالمی برادری کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے نتائج سے خبردار کیا۔

اردن: عمان نے نیتن یاہو کے بیانات کو "اشتعال انگیز اور خطرناک” قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ بیانات ممالک کی خود مختاری کے لیے خطرہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہیں۔ اردنی وزارت خارجہ نے ان عہدوں کو غزہ پر جنگ کے درمیان نتن یاہو کی کابینہ کے بحران اور تنہائی کا عکاس قرار دیا ہے۔

عراق: عراقی وزارت خارجہ نے اس بیان کو ملکوں کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی اور توسیع پسندی کی مثال قرار دیا اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر عرب اور بین الاقوامی اقدامات پر زور دیا۔

 

فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے بھی اس بیان کو نیتن یاہو کا ذاتی موقف نہیں بلکہ تورات نوآبادیاتی منصوبے کا سرکاری اعلان قرار دیا ہے اور اس منصوبے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی گروپوں کے ردعمل میں درج ذیل سرکاری بیانات بھی شامل ہیں۔

فتح تحریک نے اس منصوبے کو فلسطینیوں کے قومی تشخص اور عرب ممالک کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا اور خبردار کیا کہ اس کا جاری رہنا خطے کو تباہ کن جنگ کی طرف لے جائے گا۔

عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اسے امریکی حمایت سے عرب سرزمین پر تسلط حاصل کرنے کے طویل المدتی منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے۔

تحریک مجاہدین فلسطین نے اس نقطہ نظر کو توسیع پسندانہ سوچ کا عکاس سمجھا جو پوری عرب دنیا اور امت مسلمہ کو نشانہ بناتی ہے۔

تحریک الاحرار فلسطین نے اس بیان کو عرب حکومتوں کے لیے "ہوشیار باش” قرار دیا اور امن معاہدوں پر نظرثانی اور تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

 

بنجمن نیتن یاہو کے بیان کی اشاعت سے عرب دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بہت سے صارفین نے اس موقف کو صیہونی رژیم کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کے عین مطابق قرار دیا ہے جس میں مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور زمین پر غاصبانہ قبضہ شامل ہے۔ کچھ صارفین نے اسے عرب دنیا کے لیے "دھمکی آمیز پیغام” اور تعلقات کو معمول پر لانے کے حامیوں کے لیے "منہ پر تھپڑ” بھی سمجھا۔ گفتگو کے ایک اور حصے میں نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے ایک حصے پر عملدرآمد کے لیے اپنی رضامندی کا اعلان کیا جس میں غزہ کے رہائشیوں کی ایک بڑی آبادی کی "رضاکارانہ ہجرت” بھی شامل ہے۔ اس نے کہا کہ پہلے مکینوں کو وہاں سے نکلنے کا موقع دیا جائے گا اور پھر باقی ماندہ مزاحمتی قوتوں کو "پوری طاقت” سے نشانہ بنایا جائے گا۔ نیتن یاہو کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب صیہونی رژیم نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی جارحیت شروع کر رکھی ہے اور اس کے ساتھ ہی شام، لبنان اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی جارحانہ اقدامات کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک ایسا عمل جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ "گریٹر اسرائیل” کے حصول کے لیے آپریشنل حکمت عملی کا حصہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے