پی ٹی آئی کا سیاسی گرداب

پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات کم نہیں بلکہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ایک طرف ان کو مقدمات اور عدالت سے سزاؤں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ان کوان مشکلات سے نکلنے کے لیے سیاسی راستہ بھی نہیں مل رہا نہ مخالفین انھیں راستہ دینے کے لیے تیار ہیں۔
پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت ایک محفوظ سیاسی راستے کی تلاش میں ہے مگر اس میں اسے مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ایک طرف پارٹی کا داخلی اور تنظیمی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور پارٹی مختلف نوعیت کی گروپ بندی کا شکار ہے۔
9مئی کی بنیاد پر قائم مقدمات پر پارٹی کے کئی سینئر راہنماؤں اور کارکنوں کو لاہور اور فیصل آباد کی اینٹی ٹیررسٹ کورٹس کی طرف سے دس دس اور پانچ پانچ برس کی سزائیں اور اس کے نتیجہ میں ارکان قومی ، صوبائی اسمبلی سمیت سینیٹ سے ارکان کی نااہلی کا بھی سامناکرنا پڑرہا ہے ۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار قومی، پنجاب اسمبلی اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کے قائد حزب اختلاف کو بھی عدالتی فیصلے کے تحت نااہل کردیا گیا جو یقینی طور پر پارٹی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
نو مئی کے واقعات کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی اور پی ٹی آئی کے اس سیاسی ایڈونچر یا حکمت عملی نے اس کی سیاسی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے ۔کاش یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا ۔لیکن پی ٹی آئی کی قیادت اس حوالے سے بھی بیانیہ بنانے کی کوشش کررہی ہے کہ ان واقعات کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے اور نو مئی کے الزامات پر فیئر ٹرائل ہونا چاہیے ، بہرحال اب جب یہ قانونی مقدمات ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میںجاتے ہیںتودیکھنا ہوگا کہ سزائیں کس حد تک اعلیٰ عدالتوں میں برقرار رہ سکیں گی۔کہا جارہا ہے کہ آنے والے کچھ عرصہ میں مزید پی ٹی آئی کے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی نااہل ہوسکتے ہیں۔
اس صورتحال میں بانی پی ٹی آئی کی یہ خواہش کہ پارٹی ایک بڑی ملک گیر تحریک شروع کرے اس میں بھی پی ٹی آئی کو ناکامی کا سامنا ہے۔پانچ اگست کے بعد 14اگست کو احتجاج کی بجائے جشن آزادی منانے سے جوڑ کر پارٹی نے دانشمندانہ فیصلہ کیا اور اسی فیصلہ کی وجہ سے جشن آزادی کے نام پر پارٹی نے مختلف شہروں میں اکٹھے ہوکر اپنے سیاسی وجود کو دکھایا ۔مسئلہ پی ٹی آئی کی سیاسی سطح پر مقبولیت یا ووٹرز یا سپورٹرز کی عدم موجودگی کا نہیں بلکہ اس کو سیاسی راستہ نہ دینے کی حکمت عملی ہے۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے پی ٹی آئی کو فی الحال کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ پی ٹی آئی میں اسٹیبلیشمنٹ کا حمایت یافتہ گروپ بھی کوئی سیاسی رعایت حاصل نہیں کرسکا ہے۔خود بانی پی ٹی آئی کی اپنی سیاسی حکمت عملی اور ان کے بیانات قبولیت حاصل نہیں کررہے جس سے پی ٹی آئی کی مشکلات میں اور زیادہ اضافہ ہورہا ہے ۔اگر واقعی پی ٹی آئی ایک مضبوط اور بڑی سیاسی تحریک اپنی حمایت میں دکھاتی تو یقینی طور پر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ پر دباؤ بڑھ سکتا تھا ۔مگر موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کی سڑکوں پر کمزور مزاحمت حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے لیے کسی بڑے خطرے کی نشاندہی نہیں کرتی۔
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ اس ساری صورتحال کی ذمے داری بانی اور پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے کہ ان کے سخت گیر رویے اور غیر سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پی ٹی آئی سیاسی تنہائی کا شکار ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے بھی کوئی ایسا راستہ نہیں نکالا جو پی ٹی آئی کے لیے قابل قبول ہوتا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی قیادت جو اس وقت پارلیمان یا پارلیمان سے باہر ہے، اس کی صلاحیت بھی وہ نہیں جو پارٹی کو اس کے موجودہ بحران سے باہر نکال سکے ۔
پی ٹی آئی کے پاس دو ہی آپشن تھے ۔ایک مفاہمت کے نام پر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے کی سیاست یا دوسرا راستہ مزاحمت اور اپنی سیاسی شرائط پر سیاسی اننگز کو کھیلنا ہے ۔لیکن یہ ماننا ہوگا کہ پی ٹی آئی کو دونوں محاذوں پر مسائل کا سامنا ہے، بانی پی ٹی آئی بدستور مزاحمت کررہے ہیں مگر پارٹی کی سیاسی میدان یا سڑکوں پر مزاحمت بہت کمزور ہے جو بانی پی ٹی آئی کے لیے بھی مشکلات پیدا کررہی ہیں ۔پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی ، خیبر پختون خواہ میں صوبائی حکومت اور پنجاب میں عددی تعداد میں ایک بڑی اپوزیشن بھی پی ٹی آئی کی حمایت میں کوئی بڑا پارلیمانی کردار ادا نہ کرسکیں ۔علی امین گنڈا پور کی مفاہمت اور مزاحمت دونوں طرز کی سیاست پی ٹی آئی کے حق میں کچھ نہیں کرسکی بلکہ ان کے کردار کوپارٹی کے اندر متنازعہ طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو باہر کے حالات سے بھی مکمل آگاہی نہیں اور جو لوگ ان کو جیل میں ملتے ہیں وہ اپنے مفاد میں مختلف کہانیاں سنا کر ان کو بہت سے معاملات میں لاعلم رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رابطہ کاری میں کوئی سہولت حاصل نہیں اور نہ ہی وہ پارٹی کی موجودہ قیادت یا دیگر اہم راہنماؤں سے مل کر پارٹی کے معاملات سے آگاہ ہیں کہ پارٹی کو کوئی بڑی ہدایت دے سکیں ۔شاہ محمود قریشی ، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری ، عمر سرفراز چیمہ کی قید میں ہونے کی وجہ سے خود پی ٹی آئی پنجاب کی سیاست میں اپنی بڑی مزاحمت پیدا نہیں کرسکی ۔
پارٹی کا جو داخلی تضاد یا بحران ہے اس نے پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز کو بھی مایوس کیا ہے اور وہ بھی خاموش کھڑے نظر آتے ہیں۔وہ سابقہ ساتھی جو مشکل حالات میں پارٹی چھوڑ گئے مگر جلد ہی وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہی کھڑے رہے اور عوام سمیت میڈیا میں پی ٹی آئی کا مقدمہ لڑرہے ہیں ان کے لیے بھی پارٹی کی موجودہ قیادت نے واپسی کی کوئی سیاسی گنجائش پیدا نہیں کی بلکہ پارٹی کی موجودہ قیادت کی واپسی کو موجودہ قیادت اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے ۔
مفاہمت کی بات آگے نہ بڑھنے یا اس میں موجودہ سیاسی ڈیڈ لاک یا بداعتمادی کے ماحول نے جہاں سیاست وجمہوریت کے سیاسی راستوں کو محدود کیا ہے وہیں ان فریقوں میں محاذ آرائی ، تناؤ اور ٹکراؤ کا ماحول بڑھ رہا ہے ۔حالانکہ اس وقت تمام سیاسی فریقوں میں حقیقی مفاہمت پر نہ صرف بات ہونی چاہیے بلکہ اسی ایجنڈے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی کو فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔کیونکہ پاکستان کا داخلی بحران جو سیاسی ،معاشی ، گورننس اور سیکیورٹی کے معاملات سے جڑا ہوا ہے، اس کا حل مضبوط سیاسی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔
اس وقت جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو نظرانداز کرکے ملک کے حالات کو درستگی کی طرف بڑھا جاسکتا ہے یا اس وقت پی ٹی آئی پر تمام تر سیاسی مشکلات کے باوجود ملک درست سمت میں چل رہا ہے وہ غلطی پر ہیں۔پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی بھی دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی حقیقت ہیں اور ان سے بات چیت کی مدد سے ممکنہ سیاسی حل کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے دونوں اطراف کے لوگوں کو لچک پیدا کرنا ہوگی۔ اس سے ملک میں موجود سیاسی تقسیم کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔سیاست میں ایک دوسرے کی قبولیت اور سیاسی راستہ دینے سے ہی بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔