یونان بھی صیہونیوں کے لیے غیر محفوظ

یونان.png

یونان جو کبھی اسرائیلی سیاحوں اور سرمایہ کاروں کا پسندیدہ مقام تھا، اب انہیں مسترد کرنے والی جگہ بن چکا ہے۔  بصیر نیوز ایجنسی کے اقتصادی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق: "ہماری زمین، ہماری سمندر اور ہمارا معاشرہ صیہونیوں اور نسل کشی کے حامیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھتا… ہم اسرائیلی فوج کے مجرموں کو آرام کرنے یا تفریح کی جگہ نہیں دیں گے۔ اگر آپ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کی حمایت کرتے ہیں، تو آپ کا یہاں کوئی مقام نہیں!” یہ کچھ نعرے اور بینرز ہیں جو گزشتہ ہفتوں میں یونان کے شہروں اور سیاحتی جزائر پر دیکھے گئے ہیں۔

اگرچہ گزشتہ برسوں میں یونان اور اسرائیل کے درمیان سرکاری تعلقات نمایاں طور پر بہتر ہوئے تھے، لیکن عوامی رائے اور عوامی تحریکیں تل ابیب کی پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ مخالفت غزہ میں جنگ کے بعد اور خاص طور پر 7 اکتوبر 2023 کے بعد شدت اختیار کر گئی۔

یونان کے سیاحتی جزائر جیسے روڈس، کریٹ، سائروس اور لسبوس میں اسرائیلیوں کے خلاف نئے احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ ہوٹل مالکان، ریستوران، کشتیوں اور دکانوں کے مالکان نے "اسرائیلی فوج مردہ باد” اور "صیہونیوں کو نکالو” جیسے بینرز لگا کر اسرائیلی سیاحوں کو آنے سے روک دیا ہے۔

 

کچھ بینرز پر طنزیہ عبارتیں درج ہیں، جیسے: "یہودا اور سامریا (مغربی کنارے) میں آبادکاری کے بعد، اب لسبوس کی باری ہے”۔  گزشتہ ہفتوں میں یونانی شہریوں اور اسرائیلی سیاحوں کے درمیان متعدد جسمانی جھڑپیں رپورٹ ہوئی ہیں۔ ان واقعات کے بعد، اسرائیلی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر اسرائیلی شناخت ظاہر نہ کریں۔  یونان کی سیاسی قیادت نے بھی واضح موقف اختیار کیا ہے۔ ایتھنز کے میئر ہارس ڈوکاس نے کہا: "ہمارے شہری ان لوگوں سے جمہوریت کا سبق نہیں لیں گے جو روزانہ غزہ میں بچوں کو بمباری، بھوک اور پیاس سے مار رہے ہیں”۔

حالیہ سروے کے مطابق، 35% یونانی شہری اسرائیل کو غزہ کی جنگ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، جبکہ صرف 20% اسرائیل کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔  یونان میں اسرائیلی سرمایہ کاری اور سیاحت کو شدید دھچکا لگنے کا خدشہ ہے، جس سے مشرقی بحیرہ روم میں دونوں ممالک کے مشترکہ منصوبوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے