نتانیاہو کا غزہ پر قبضے کا منصوبہ اور اس کے نتائج

OIP-3.webp

اسرائیلی اخبار "اسرائیل ہیوم” کے فوجی تجزیہ کار یوآو لیمور نے اپنے مضمون میں خبردار کیا ہے کہ کابینہ سلامتی کا غزہ شہر پر فوجی قبضے کا فیصلہ نہ صرف یرغمالوں اور فوجیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، بلکہ خود اسرائیل کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے ساتھ ہی دو اہم واقعات رونما ہوئے ہیں: جرمنی نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے، جبکہ قطر اور امریکہ کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔

لیمور نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے اور آنے والے مہینوں میں مزید ممالک فلسطین کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے اسرائیلی سلامتی اور سفارتی عہدیداروں نے اس فیصلے کو خطرناک قرار دیا ہے، حتیٰ کہ قومی سلامتی کونسل کے سربراہ زاہی ہینگبی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ تاہم نتانیاہو اور ان کے وزراء نے ان انتباہات کو نظر انداز کرتے ہوئے حماس کے خاتمے اور غزہ پر مکمل کنٹرول کے اپنے موقف پر اصرار جاری رکھا ہے۔

لیمور نے اس منصوبے کو "موت کا جال” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف یرغمالیوں اور فوجیوں کے لیے، بلکہ ہزاروں فلسطینیوں اور خود اسرائیل کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے امریکہ کی ویت نام، عراق اور افغانستان میں ناکامیوں اور روس کی افغانستان اور یوکرین میں مشکلات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں مکمل فوجی قبضہ ناممکن ہے۔

دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر یائر لاپید نے نتانیاہو کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں کے خاندانوں کے مطالبے پر ہڑتال ضروری ہے، کیونکہ کوئی بھی یہودی اقدار پر اجارہ داری نہیں رکھتا۔ یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب یرغمالیوں کے والدین نے ہڑتال کا مطالبہ کیا تھا۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے ہسپتالوں کی گنجائش 300 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے اور طبی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ زیادہ تر ادویات ختم ہو چکی ہیں اور غذائی قحط کے باعث کئی اموات ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے بن گوریون ہوائی اڈے پر موجود طبی امداد کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔

 

تل ابیو یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی معاشرے کی برداشت شدید طور پر کم ہوئی ہے۔ تحقیق کے سربراہ شاؤل کیمخی نے کہا کہ جبکہ عام طور پر جنگ کے وقت لوگوں میں وطن پرستی بڑھ جاتی ہے، اسرائیل میں اس کے برعکس ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی عوام نے نتانیاہو پر سے اعتماد کھو دیا ہے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حکومتی کوششوں کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ کیمخی نے خبردار کیا کہ جنگ جاری رہنے اور یرغمالوں کو نظر انداز کرنے سے اسرائیلی معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے