مغرب کے دباؤ، اسرائیل سے تعلقات، فلسطینیوں کی بے دخلی اور امریکی جنگی سازشوں کا تجزیہ

مغرب کے دباؤ، اسرائیل سے تعلقات، فلسطینیوں کی بے دخلی اور امریکی جنگی سازشوں کا تجزیہ
🔻 پاکستان کے معروف ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک مقبول پروگرام میں، سینئر صحافی حامد میر کی میزبانی میں، دو ممتاز پاکستانی شخصیات — ڈاکٹر ملیحہ لودھی (اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق نمائندہ) اور مشاہد حسین سید (سابق چیئرمین سینیٹ دفاعی کمیٹی) نے مشرق وسطیٰ کی تازہ صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
🔻 یہ پروگرام غزہ میں کشیدگی، ایران و اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی، ٹرمپ و نیتنیاہو کی حالیہ ملاقات، اور اسلامی ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دباؤ کے پس منظر میں نشر ہوا، اور یہ حالیہ دنوں کا ایک اہم ترین جیو پولیٹیکل تجزیہ قرار پایا۔
🔻 حامد میر نے ابتدا میں پوچھا کہ: کیا ٹرمپ اور نیتنیاہو کی ملاقات امن کی کوشش ہے یا فلسطینیوں پر جارحانہ منصوبوں کی پردہ پوشی؟ اور کیا ٹرمپ واقعی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے مستحق ہیں؟
🔻 ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جواب میں کہا کہ یہ اقدامات امن کی طرف قدم نہیں بلکہ امن کے لیے واضح خطرہ ہیں۔
🔻 انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو "بحران کا آتش افروز” قرار دیا جو پہلے تنازعات کو بھڑکاتے ہیں اور پھر امن کا دعویدار بن کر سامنے آتے ہیں۔
🔻 ملیحہ لودھی نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کے منصوبے کو جنگی جرم قرار دیا اور کہا کہ یہ عمل بین الاقوامی قوانین اور چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
🔻 انہوں نے اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ عملی ردعمل دکھائیں اور او آئی سی (OIC) کو فوری طور پر فعال کریں تاکہ انسانی المیوں کی تکرار روکی جا سکے۔
🔻 بعد ازاں، مشاہد حسین سے پوچھا گیا: کیا ٹرمپ اور نیتنیاہو کی ملاقات سے امریکہ کی ایران و فلسطین پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر آتی ہے؟ اور ابراہیمی معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا؟
🔻 مشاہد حسین نے کہا کہ ٹرمپ نے خود کو ہندوستان و پاکستان، ایران و اسرائیل، اور کانگو و روانڈا کے درمیان ثالث قرار دیا، لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص خود جنگ کو ہوا دیتا ہے، کیا وہ ثالثی کے قابل ہے؟
🔻 انہوں نے کہا کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی رسمی دباؤ نہیں ہے، اور اس بارے میں جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ صرف مغرب زدہ اور ناکام اقلیت کی خواہشات ہیں جن کا پاکستان کی قومی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔
🔻 مشاہد حسین نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو کشمیر کے مقصد سے خیانت قرار دیا اور کہا کہ یہ پاکستان کے بانیوں علامہ اقبال اور محمد علی جناح کے اصولوں سے انحراف ہے — انہوں نے اسے شرمناک مطالبہ کہا۔
🔻 ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ ٹرمپ نے نہ صرف فلسطینیوں کی بے دخلی کی حمایت کی ہے بلکہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو بھی نظر انداز کیا ہے۔
🔻 انہوں نے کہا: امن صرف انصاف کے ساتھ ہی ممکن ہے، زبردستی کا امن کبھی پائیدار نہیں ہوتا۔
🔻 انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر بھی خبردار کیا کہ بعض دعوؤں کے برعکس، یورینیئم کی افزودہ مقدار اب بھی باقی ہے اور تنازعہ دوبارہ بھڑکنے کا خطرہ موجود ہے۔
🔻 لودھی نے یہ بھی کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جو غیر رسمی رابطے ہوئے ہیں، وہ ناکافی ہیں کیونکہ اعتماد کا فقدان موجود ہے — خاص طور پر امریکہ پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
🔻 انہوں نے تنبیہ کی کہ اگر ایران پر نیا حملہ ہوا تو نہ صرف پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوگا بلکہ پاکستان بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
🔻 اختتام میں دونوں ماہرین نے کہا کہ پاکستان کو مغربی سازشوں کے خلاف ہوشیار رہنا ہوگا۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ ہمیں "نمائشی سیاست” کے فریب میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ زمینی حقیقتیں دعووں سے مختلف ہوتی ہیں۔
🔻 مشاہد حسین نے بھی زور دیا کہ پاکستان کو اپنے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے، نہ کہ اسرائیل کو تسلیم کر کے یا نیابتی جنگوں کا حصہ بن کر خود کو نوآبادیاتی سازشوں میں دوبارہ الجھا دے۔