یورپ یمن سے ٹکراؤ سے گریزاں؛ "آسپیدس” بحری مشن ایک ناکام منصوبہ

💢 یورپ یمن سے ٹکراؤ سے گریزاں؛ "آسپیدس” بحری مشن ایک ناکام منصوبہ
✍ لقمان عبداللہ کی رپورٹ: گذشتہ مہینوں کی بے اثری کے بعد بحرِ احمر میں "آسپیدس” مشن کے نامعلوم مستقبل پر تجزیہ
🔹 "انصار اللہ” تحریک کے حملوں کے دوبارہ شدت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ بحرِ احمر میں، اس یورپی بحری آپریشن کی مؤثریت پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں جسے "آسپیدس” کے نام سے 2024 کے آغاز میں یورپی یونین نے "آزادیٔ جہازرانی کے تحفظ” کے نعرے کے تحت شروع کیا تھا۔ خاص طور پر حالیہ دنوں میں "ماجیک سیز” اور "اترنیٹی سیز” نامی دو بحری جہازوں کے ڈوبنے کے بعد، ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
🔹 تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین یمن کے ساتھ براہِ راست جھڑپ سے خوفزدہ ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ کی مختلف کوششیں — جیسے "حارس الازدهار” اتحاد اور بائیڈن و ٹرمپ کے ادوار میں ہونے والے فضائی حملے — ناکام رہی ہیں۔
اسی وجہ سے یہ یورپی مشن زیادہ ایک علامتی اقدام معلوم ہوتا ہے، نہ کہ ایک مضبوط دفاعی اتحاد۔
🔹 اس کے برعکس، یمن نے اپنی بحری عسکری صلاحیتوں میں قابلِ ذکر پیشرفت دکھائی ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی بحری راستوں کے لیے ایک براہِ راست چیلنج ہے بلکہ یورپ کے علاقائی سکیورٹی کردار کے لیے بھی ایک آزمائش بن چکی ہے۔
🔹 ان دونوں بحری جہازوں کے ڈوبنے سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایک نمایاں عملی خلاء موجود ہے، کیونکہ کسی بھی جنگی جہاز یا نیول فورس نے نہ تو حملے کو روکا اور نہ ہی عملے کو بچانے کے لیے حرکت کی۔ اس واقعے نے "آسپیدس” مشن کے قواعدِ درگیری اور آپریشنل محدودیتوں پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
🔹 موجودہ محدود آپشنز کے پیشِ نظر، یورپی سیاسی اور سفارتی حلقوں میں غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ اسے خطے کے بڑھتے ہوئے تناؤ کو کنٹرول کرنے اور یمن و بحرِ احمر کے بحران کو کم کرنے کا اہم اور ضروری قدم سمجھا جا رہا ہے۔
🔹 یورپی یونین کے کئی وزرائے خارجہ اس بات پر پریشان ہیں کہ جاری جنگ خطے میں بحران کو مزید بڑھا دے گی اور دیگر علاقوں میں بھی اس کا دائرہ پھیل سکتا ہے۔
🔹 اس کے ساتھ، یورپی ممالک کے مابین بھی اس معاملے پر اختلافِ رائے موجود ہے — کچھ اسرائیل کی محدود حمایت کرتے ہیں، جبکہ کچھ غزہ اور فلسطینیوں کے حق میں یا غیرجانبدار موقف اپنائے ہوئے ہیں۔
🔹 یورپی حکومتوں پر بڑھتا ہوا دباؤ انہیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ "آسپیدس” مشن کے مستقبل کے بارے میں واضح مؤقف اختیار کریں۔
🔹 تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ مشن آغاز سے ہی ناکام تھا، کیونکہ وہ یمنی حملوں کو روکنے میں ناکام رہا، خاص طور پر ان غیر اسرائیلی بحری جہازوں کے خلاف بھی جو نشانہ بنے۔
🔹 "آسپیدس” مشن کی ابتدائی سرگرمیوں میں کچھ مبصرین نے انصار اللہ کے ساتھ غیرعلانیہ یا میدانی ہم آہنگی کے آثار بھی دیکھے۔
کیونکہ اس وقت انصار اللہ نے یورپی بحری جہازوں کو نشانہ نہیں بنایا، جب کہ امریکی اور برطانوی جہازوں پر حملے جاری تھے۔
🔹 تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان ایک "غیر رسمی قواعدِ درگیری” رائج تھا — یعنی میدان میں محتاط طرزِ عمل اور باہمی اجتناب۔
🔹 رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ یورپی مشن نے اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو براہِ راست تحفظ فراہم کرنے سے گریز کیا، جو کہ درحقیقت انصار اللہ کی خواہشات کا غیر رسمی احترام تھا اور تحریک کو مشتعل نہ کرنے کی ایک کوشش سمجھی جا رہی ہے۔
🔹 اس سب کے پیشِ نظر، یورپی ممالک پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کہ وہ "آسپیدس” مشن کے مستقبل کے بارے میں صاف اور دو ٹوک جواب دیں:
کیا یہ صرف سیاسی نمائش کا ایک پردہ تھا؟
یا واقعی ایسا فوجی منصوبہ تھا جس کا مقصد دنیا کے سب سے خطرناک بحری راستوں میں سے ایک کو محفوظ بنانا تھا؟
🔹 قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ امریکہ — جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور انٹیلیجنس ہے — یمن کے معاملے میں اب تک کوئی فیصلہ کن حل پیش نہیں کر سکا،
تو پھر یورپ، جو ایسی فوجی طاقت نہیں رکھتا، وہ کیسے کامیاب ہو گا؟
🔹 یورپ کی بے بسی اور صرف تماشائی بنے رہنے کی کیفیت نے بہت سے حلقوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ "آسپیدس” مشن کی افادیت اور تسلسل پر دوبارہ غور کریں۔