انقلاب آن لائن دستیاب ہے: عاصمہ شیرازی کا کالم
ہر گزرتا دن تاریخ بن رہا ہے۔ تاریخ بھلا کب رُکی ہے، کوئی کتنا ہی بدلنے کی کوشش کرے مگر کوئی ایک سچ ہزار جھوٹ کے مقابل آکھڑا ہوتا ہے۔ تاریخ زندان میں بھی زندہ رہتی ہے اور تخت پر بھی، کٹہرے میں بھی وجود تلاشتی ہے اور تختے پر بھی۔ تاریخ کا ستم اور مقدمہ مستقبل کا حوالہ بن جاتا ہے۔
عام انتخابات کی تیاریاں ہیں، آئینی عمل کی تکمیل کے لyے سپریم کورٹ راستہ ہموار کر چکی ہے۔ بظاہر التوا کی تمام کوششیں اور سازشیں ناکام ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں پٹیشن کا معاملہ پی ٹی آئی کو دفاعی پوزیشن پر لے گیا۔
اس درخواست کے مقاصد کیا تھے، عوامل کیا ہوئے، محرک البتہ پی ٹی آئی ہی بنی۔ انتخابات کے انعقاد کے نازک مرحلے پر اس درخواست کو موقع میں بدلنے کی باریک کوشش کس نے کی اور کیوں ہوئی، اس کا جواز اور جواب دونوں دلچسپ ہیں تاہم تحریکِ انصاف کے ہاتھ محض وضاحت کے کچھ نہ آیا۔
وجوہات کیا تھیں؟ کپتان کا میدان میں نہ ہونا، کھلاڑیوں کا وکٹیں اٹھا کر بھاگ جانا اور ایمپائر کا اس وقت اُن کے حق میں نہ ہونا یا کچھ اور۔۔۔ تحریکِ انصاف وقت پر شرط لگانا چاہتی ہے کہ وقت کے کھیل میں بازی کسی وقت اُن کے ہاتھ آ جائے۔ کپتان جانتا ہے کہ میچ جیتنے کے لیے صرف تماشائی ضروری نہیں بلکہ موسم اور حالات کا سازگار ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔
اس سے قبل چھ مئی کو پی ڈی ایم حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مذاکرات عمران خان کی جانب سے 14 مئی کی ڈیڈ لائن رکھے جانے پر کامیابی کے دروازے پر پہنچ کر ناکام ہو گئے۔ اس کے تین دن کے بعد ’نو مئی‘ کے واقعات رونما ہوئے۔ سازش کس کی تھی، ترتیب کس نے دی، اس کے باوجود ہاتھ کس کے استعمال ہوئے، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔
اب جب انتخابات کی تاریخ اور شیڈول آ چکا تو زمینی حقائق مختلف بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ تحریک انصاف کی تنظیم موجود نہیں تاہم آن لائن جلسوں جیسی رونق ضرور موجود ہے۔ یہاں وہاں چھپے سیاسی رہنما آن لائن جلوہ افروز بھی ہیں اور ’سپیس‘ یعنی خلا میں بیٹھے سیاسی انقلاب پر محو گفتگو بھی۔ گویا انقلاب آن لائن دستیاب ہے۔
مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی اے آئی کا سہارا لیے عمران خان کا ویڈیو پیغام ان تمام شکوک و شبہات کو یقین میں بدل رہا ہے جو انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
دیکھنے میں یہ منظر آنکھوں کو بھاتا ہے اور دل کو لبھاتا ہے مگر اسے انٹرنیٹ کی دُنیا سے نکال کے حقیقی دُنیا میں لانا اور ووٹر میں تبدیل کرنا تحریک انصاف کے لیے اہم ترین چیلنج ہے۔ کاش کہ پولنگ سٹیشنز بھی آن لائن ہوتے اور اُمیدوار بھی ایکس اور فیس بُک پر نظر آتے۔
’نامعلوم چہروں‘ سے سوشل میڈیا پر دھوم مچانے سے انتخابات جیتے جا سکتے تو جا بجا پھرتے کروڑوں فالوونگ والے کئی سٹارز اس وقت سیاسی دنیا پر عروج کر رہے ہوتے جبکہ ای ووٹنگ میں ’نامعلوم ووٹرز‘ کی بھرمار ہوتی۔
دوسری جانب ہواؤں کی لہروں کو طاقت سے قابو میں لانے والی مقتدرہ کب سیکھے گی کہ سوشل میڈیا کی بندش سے نہ جن بوتل میں واپس جا سکتے ہیں اور نہ ہی خیال کی پرواز روکی جا سکتی ہے، وقت اور حالات کا دھارا معاملات کو خود ہی سدھارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ تاحال تحریک انصاف پنجاب میں جلسوں کا نہ تو شیڈول جاری کر پائی ہے اور نہ ہی کوئی تحریک دکھائی دیتی ہے البتہ خیبر پختونخوا میں ورکرز اور رہنما متحرک ضرور ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کو متوازن میدان دستیاب نہیں مگر بلوچستان اور سندھ میں رکاوٹ کیا ہے۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر متحرک پی ٹی آئی کارکن یہ نہیں جانتے کہ انتخابات ایک سائنس ہے اور چند شہروں اور اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کامیاب سپیسز یعنی ’خلائی پروگرام‘ تو ہو سکتے ہیں تاہم انتخابات کے لیے باقاعدہ منظم ورک فورس کی ضرورت ہوتی ہے جو تنظیم فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں دو تہائی اکثریت صرف ذہن سازی سے نہیں آ سکتی البتہ تحریک انصاف کو ایک کامیابی ضرور حاصل ہے اور وہ یہ کہ اُنھیں سوشل میڈیا پر چیلنج کرنے والا تاحال کوئی نہیں۔
ایسے ماحول میں جہاں تحریک انصاف میدان سے غائب ہے، ن لیگ بھی مستقل بند کمروں کی سیاست میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کا تکیہ ایک ہی طاقت اور ایک ہی گھر پر ہے۔ کیا ایسے میں پیپلز پارٹی سرپرائز دے سکتی ہے؟
بلوچستان میں ایک بار پھر ’تبدیلی‘ کی خبریں ہیں، مقتدرہ موجودہ سیاسی حالات میں پھر نیوٹرل ہو سکتی ہے اور یوں بھی حالات جتنے مینج ہو سکتے تھے ہو گئے شاید اس سے آگے جانا ممکن نہ ہو۔ ن لیگ نے پنجاب میں میدان خالی چھوڑا تو کھیل مکمل ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔