دہشت گردوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا

terrorism1748117090-0-600x450.webp

حکومت نے کہا ہے بلوچستان کے ضلع خضدار میں دہشت گرد حملے کی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس دہشت گردی میں فتنۃ الہندوستان ملوث ہے۔ اور یہ دہشت گردی ’’ را‘‘ کی سرپرستی میںکی گئی ہے۔ حکومت فتنۃ الہندوستان کے خلاف ضرب عضب جیسا آپریشن کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاہم فی الوقت انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری رہیں گے۔

اس بات کا اعلان پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وفاقی سیکرٹر ی داخلہ خرم آغا کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا ہے ۔وفاقی سیکریٹری داخلہ محمد خرم آغا نے فتنۃ الہندوستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جیسے سانحہ اے پی ایس کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا، اسی طرح قتنۃ الہندوستان کے خلاف بھی آپریشن کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور ان دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے گا۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت اپنی دہشت گرد پراکسیز فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کے ذریعے خطے اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے،ان پراکسیز کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر ان کے مذموم عزائم ناکام بنا دیں گے۔ہم نے بارہا بھارت اورعالمی برادری کے سامنے بھارتی دہشت گردی کے شواہد پیش کیے ہیں۔

ادھر سانحہ خضدار کی زخمی طالبہ ملائکہ شہید ہوگئی ہے ، یوں خضدار حملے میں شہید ہونے والے طلباء و طالبات کی تعداد 6  تک پہنچ گئی ہے، جن میں 5 طالبات اورایک طالب علم شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی خضدارمیں اسکول بس پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔خضدار میں دہشت گردی کی بازگشت عالمی سطح تک سنی گئی ہے کیونکہ یہ ایسا بہیمانہ اقدام ہے، جسے کوئی جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ، لہٰذا ایسا جرم کرنے والے مجرمان، ان کے سہولت کار اور سرپرست رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

ادھر خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں گزشتہ روز رات گئے ایک پولیس چوکی پر دہشتگردوں نے دھاوا بولا، جسے مقامی پولیس جوانوں نے بھرپور جوابی کارروائی کرکے ناکام بنا دیا ، اس مقابلے میں کئی دہشت گردوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ادھر خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کے بازار میں نامعلوم افراد کی چلتی گاڑی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں  پولیس اہلکار سمیت 2 افراد جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ الخواراج اور فتنتہ الہندوستان دونوں اپنی کارورائیوں میں مصروف ہیں اور ان کے درمیان پورا رابطہ موجود ہے۔اس کے علاوہ سی ٹی ڈی پنجاب نے ضلع میانوالی میں کارروائی کے دوران 3 دہشت گرد ہلاک کر دیے ہیں جب کہ 6 دہشت گرد فرار ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ دہشت گرد پولیس چوکیوں پرحملے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکے تھے ۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سی ٹی ڈی ٹیم کو تین دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر شاباش دی ۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے ، پنجاب میں دہشت گردی کے لیے آنے والوں کو سخت ترین جواب ملے گا ۔

پاکستان میں دہشت گردی کثیر الجہتی ہے لیکن دہشت گردی کی تمام جہتوں کا ہدف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پردہشت گردی ہورہی ہے جب کہ خیبرپختونخوا مذہب کا لبادہ اوڑھے دہشت گرد قتل وغارت میں ملوث ہیں۔ان کی پشت پناہی افغانستان اور بھارت کررہے ہیں۔گزشتہ روز ہونے پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ 2009 میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کو ڈوزیئر حوالے کیا گیا جس میں بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود تھے ۔

2010میں دستاویزی ثبوت جاری کیے گئے ۔ 2015 میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارتی دہشت گردی سے متعلق ایک ڈوزیئر پیش کیا۔2016میں بھارت کی سرپرستی میں بلوچستان میں دہشت گردی کو بے نقاب کیا گیا۔بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا۔ اس نے بھارتی حکومت کی سرپرستی اور فنڈز کی فراہمی سے متعلق اعتراف کیا۔ 2019میں ٹھوس شواہد کے ساتھ ڈوزیئر اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریزینٹیشن کے ذریعے20 سال سے بھارتی سرپرستی میں جاری دہشت گردی سے متعلق حقائق میڈیا کے سامنے پیش کیے اور بتایا کہ 21مئی کو معصوم بچوں پر بزدلانہ حملہ بھارت کا دہشت گرد چہرہ اور فتنہ الہندوستان کا ظالمانہ اور حقیقی چہرہ ہے۔

خضدارحملے میں انسانیت ، اخلاقیات ، بلوچی اقدار اور پاکستانیت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام سوال کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا بلوچی اقدار سے کیا تعلق ہے؟ پاکستانی مسلمان پوچھ رہے ہیں کہ اس کا اسلام اور انسانیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ کون سی آئیڈیالوجی ہے۔

یہ آئیڈیالوجی نہیں حیوانیت ہے، اس لیے یہ فتنہ الہندوستان ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت نے فتنہ الہندوستان سمیت اپنی پراکسیز کو متحرک کیا جن کا ایمان صرف پیسہ ہے۔انھوں نے کہا بھارت کے اطلاعاتی ذرایع بھی فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں،4 نومبر کو میانوالی پر حملے سے قبل بھارتی میڈیا نے کہا کہ چند گھنٹے میں اہم واقعہ ہونے والا ہے اور اگلی صبح انھوں نے گڈ مارننگ میانوالی کہا اور اس حملے سے متعلق جھوٹی اور من گھڑت خبریں نشر کیں، 6 اکتوبر2024 کو کراچی میں چینی شہریوں پر حملہ ہوا، جعفر ایکسپریس پر حملے سے پہلے بھی ایسی خبریں چلائی جاتی رہیں،خضدار کے المناک سانحہ کے بعد بھارت کے’’را‘‘سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پروپیگنڈا کیا گیا۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں لاکھوں سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلا رہی ہیں جو فتنہ الخوارج کی حمایت کرتے ہیں، یہ وہی ہیں جو ڈس انفولیب چلا رہے تھے۔

بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے، غیرملکی اور ان کے مقامی سہولت کار کئی دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے غریب اور پسماندہ عوام کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلوچ قوم پرستی کے نام پر سیاسی گروہ ہوں یا پشتوں قوم پرستی کی نام لیوا سیاسی جماعتیں، ان کو کسی الیکشن میں کامل اکثریت نہیں ملی ہے۔

حالانکہ یہ سیاسی جماعتیں جمہوری کلچر کے مطابق الیکشن میں حصہ لیتی ہیں، اگر ان جمہوری قوم پرستی سیاسی جماعتوں کو کلی اکثریت نہیں ملتی تو بندوق اٹھانے والے دہشت گردوں کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام کیسے پسند کرسکتے ہیں۔ دہشت گرد اور بندوق بردار گروہ عوام کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں، عوام ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے شر سے ڈرتے ہیں۔بلوچستان میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، بی این پی، بی این ایم ، باپ پارٹی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ، اے این پی اور جے یو آئی جمہوری سیاست کررہی ہیں، بلوچستان کے عوام انھیں ووٹ دیتے ہیں۔

لیکن بندوق بردار دہشت اور خوف کی فضا پیدا کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں موجود لوگ منتخب نہیں ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلوچستان سماجی و معاشی طور ماضی کی نسبت خاصا آگے بڑھ چکا ہے ، ریکوڈک آپریشنل ہو رہا ہے، کثیر ملکی شراکت دار یہاں آنے کے لیے تیار ہیں، بلوچستان کی بلیو اکانومی پر معاہدے ہو رہے ہیں، لاکھوں ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنایا گیا ہے، گوادر بندرگاہ اور گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ فعال ہیں، بلوچستان کے 73  ہزار طلبا صوبائی حکومت کے اسکالرشپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، شاہراہوں کے نیٹ ورکس کو توسیع دی گئی، اسپتال اور ڈائیلائسز سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔

بلوچستان میں سیاسی اور جمہوری عمل مسلسل جاری ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ پوری طرح فعال ہے اور اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ صوبائی اسمبلی بھی اپنا جمہوری رول ادا کر رہے ہیں۔ بی ایل اے اور اس جیسے دیگر مسلح گروہ بلوچ عوام کی نمایندگی نہیں کرتے۔

ان لوگوں کے پاس کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے اور نہ ہی بلوچستان کے عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے کوئی معاشی پروگرام ہے۔ ویسے بھی دہشت گرد گروہوں کو سیاسی اور جمہوری نظریات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کا نظریہ ’’مارو اور لوٹ مار کرو‘‘ کے سوا کوئی اور نہیں۔

اس وقت افغانستان میں طالبان اقتدار میں ہیں۔ ماضی میں یہ لوگ مسلح کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور خود کو اسلام پسند اور مجاہدین قرار دیتے رہے ہیں۔ اب وہ اقتدار میں ہیں لیکن افغانستان کی حالت سب کے سامنے ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ طالبان کے پاس بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کوئی نظریہ نہیں ہے۔ کوئی معاشی روڈ میپ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی روڈ میپ موجود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے