کسی ایٹمی جنگ میں وسیع تباہی کا وہم

ہیروشیما ناگاساکی میں دو بموں کے ذریعے دو لاکھ انسانوں کی فوری اور پانچ لاکھ انسانوں کی تابکاری اثرات سے بتدریج ہلاکت نے اس کرہِ ارض پر جو خوف پیدا کیا اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر ملک کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنی عسکری ایٹمی لیبارٹریاں تلف کر دیتا یا کم از کم یہ عہد کر لیتا کہ آیندہ کبھی کوئی ریاست یورینیم اور پلاٹینیم کو ’’ ویپن گریڈ لیول تک ‘‘ افزودہ نہیں کرے گی۔
اس عہد کو یقینی بنانے کے لیے ہر ملک کا جوہری پروگرام مکمل طور پر اقوامِ متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن ( آئی اے ای اے ) کی براہ راست نگرانی میں کام کرے گا تاکہ ایٹمی توانائی کو محض پرامن ترقیاتی مقاصد تک محدود رکھا جا سکے۔
مگر ہیروشیما ناگاساکی کا الٹا اثر ہوا اور تب تک بنے دو تین ایٹم بم گہرے دفن کرنے کے بجائے اتنے تیار کر لیے گئے جو اس کرہِ ارض جیسے چار اور سیاروں کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آج جوہری مونچھوں کو تاؤ دینے والی ریاستوں کی تعداد ایک سے بڑھ کر آٹھ ہو گئی ہے اور دیگر ممالک ان آٹھ کو خوف کے بجائے حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔
اگر ایٹم بم میں ہی تحفظ تصور کر لیا گیا تھا تو پھر منطقی اعتبار سے روائیتی ہتھیاروں کو ختم کر دینا چاہیے تھا۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آٹھوں ایٹمی طاقتوں کا روائیتی ہتھیاروں پر خرچہ اور انحصار کم ہونے کے بجائے ہزار فیصد بڑھ گیا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں مسلح تصادموں ، خانہ جنگیوں اور بڑی جنگوں میں کل ملا کے جتنے انسان مارے گئے ہیں ان کی مجموعی تعداد دو عالمی جنگوں میں مرنے والوں کی تعداد سے کم ازکم بیس گنا ہے۔
ایٹم بم کی عمر تو خیر اسی برس ہے۔ اگر حساب لگالیں تو پچھلے ایک ہزار برس کی جنگوں میں کم از کم ایک ارب انسان قتل ہوئے۔گیارہویں و بارہویں صدی کی منگول جنگوں میں پانچ کروڑ یعنی تب کی عالمی آبادی کا پانچ فیصد قتل ہو گیا۔صلیبی جنگوں میں پچیس سے تیس لاکھ ، برازیل ، میکسیکو اور پیرو کی ہسپانوی فتوحات میں ڈیڑھ کروڑ ، مراٹھوں اور مغلوں کی دکنی جنگوں میں تقریباً بیس لاکھ ، انقلابِ فرانس اور نپولین کی جنگوں میں کل ملا کے ستر لاکھ ، امریکی خانہ جنگی میں دس لاکھ ، پہلی عالمی جنگ میں دو سے ڈھائی کروڑ اور ووسری عالمی جنگ میں پانچ کروڑ سے زائد ، کوریا کی جنگ میں تیس لاکھ ، جنگِ ویتنام میں چالیس لاکھ ، انیس سو سڑسٹھ تا ستر نائجیریا کی خانہ جنگی میں تیس لاکھ ، کانگو کی ستائیس برس سے جاری خانہ جنگی میں پچاس لاکھ سے زائد ،سوڈان کی تین خانہ جنگیوں میں پچاس لاکھ اور سوویت افغان جنگ میں دس لاکھ انسان قتل ہوئے۔یہ سیکڑوں خونی مثالوں میں سے صرف چند ہیں۔
مگر یہ سوچ برقرار ہے کہ بھلے روائیتی جنگوں اور اس کے براہِ راست و بلاواسطہ اثرات سے دنیا کی آدھی آبادی مر جائے لیکن ایٹمی جنگ نہ ہو۔
اس خوف کا سبب ایٹم بم نہیں انسانی نفسیات ہے۔مثلاً ہمارے اردگرد یا خاندان میں اگر ایک آدمی قتل ہو جائے تو یہ خبر ہے۔اگر دس ایک ساتھ قتل ہو جائیں تو یہ قومی خبر ہے۔اگر ایک ہی مقام پر سو آدمی قتل ہو جائیں تو یہ عالمی خبر ہے۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ دنیا میں موت کے جو دس بڑے اسباب بتائے جاتے ہیں ان میں قتل اور جنگیں ہرگز شامل نہیں تو آپ کیا سوچیں گے ؟
دنیا میں سب سے بڑا قاتل دل سے جڑے امراض اور پیچیدگیاں ہیں۔تیرہ فیصد اموات اسی کارن ہوتی ہیں ( لگ بھگ ایک کروڑ )۔موت کے باقی نو بڑے اسباب میں شوگر ، کینسر ، الزائمر ، ٹی بی اور سانس کی پیچیدگیوں سمیت تمام تر طبی وجوہات شامل ہیں۔
انیس سو اٹھارہ کے اسپینش فلو سے دس کروڑ ، ایڈز سے گزشتہ چالیس برس میں ساڑھے چار کروڑ اور کوویڈ نائنٹین سے ساڑھے تین کروڑ اموات ریکارڈ ہوئیں۔کچھ عرصے پہلے تک بیماری سے مرنے کو بھی طبعی موت کے خانے میں رکھا جاتا تھا۔مگر آج بیشتر بیماریوں پر قابو پالیا گیا ہے ، پایا جا رہا ہے یا جلد پا لیا جائے گا۔چنانچہ اب یہ مفروضہ دفن ہو جانا چاہیے کہ بیماری سے موت بھی طبعی ہوتی ہے۔آلودہ پانی سے لگنے والی بیماریوں سے مرنے والے لاکھوں بچے آسانی سے بچائے جا سکتے ہیں۔مگر جنگوں کی ہلاکتوں کو حواس پر طاری کرنے والی ریاستیں اور شہری اسے تب مسئلہ سمجھتے ہیں جب ایک لاکھ بچے اسہال کے بجائے کسی جنگ میں ایک ساتھ یا چند ماہ میں مر جائیں۔
آپ نے کبھی سنا کہ کرہِ ارض پر بسنے والا کوئی اور جاندار اپنی ہی نسل کشی کا مجرم ہو۔ جنگل میں جب آگ لگتی ہے یا ریگستان میں طوفان آتا ہے تو ایک نسل کے جانور دوسری نسل کو پیشگی خبردار کر دیتے ہیں۔جانور صرف بھوک مٹانے کے لیے شکار کرتے ہیں۔کسی اور نسل یا اس کے علاقے کو غلام نہیں بناتے ، اجتماعی انتقام نہیں لیتے ، جلاوطن نہیں کرتے۔اس پرامن جنگلی حیات کا صرف ایک ہی مشترکہ دشمن ہیں یعنی ہم۔اور ہمارا کوئی جانور دشمن نہیں سوائے ہمارے۔پھر بھی جانور وہ ہیں اور ہم اشرف المخلوقات۔
انسان کی دماغی صحت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وہ اپنے آپ سے بچنے کے لیے وہ وہ ہتھیار بناتا ، بیچتا اور جمع کرتا ہے جن کا بالاخر وہ خود شکار ہو جاتا ہے۔اور ایسے بھی ہتھیار بناتا ہے جنھیں ایک بار استعمال کرنے کے علاوہ کبھی استعمال نہیں کر سکا۔ جیسے ایٹم بم۔بھلا ایسے ہتھیار کس کام کے جو آپ کا بیشتر پیسہ بھی کھا جائیں اور پڑے سڑتے رہیں اور ان کی حفاظت کی لاگت تیاری کے خرچے سے بھی زیادہ ہو۔ایٹمی ہتھیار دراصل وہ خنجر ہے جسے بائیں ہاتھ میں پکڑ کے مخالف کو ڈرایا جائے اور پھر دائیں ہاتھ کے روائیتی گھونسے سے اس کی دھنائی کی جائے۔
اگر انسانوں کو واقعی کبھی نہتے اور پرامن انداز میں رہنا سیکھنا ہو تو تمام فیصلہ سازوں کو کسی اچھی جنگل یونیورسٹی میں جانوروں کے طرزِ زندگی اور ان کے جبلی تمدن کے کورس میں داخلہ لینا چاہیے۔جانوروں کو تو انسان اپنی راہ پر نہ چلا سکا۔ہو سکتا ہے جانور ہی اسے ماحول سے پرامن ہم آہنگی کے فوائد سمجھا سکیں۔
مگر ایسا شاید کبھی ممکن نہ ہو۔کیونکہ جانور یونیورسٹی آف نیچر کے تعلیم یافتہ اور کرہِ ارض کے اصل باسی ہیں۔فطین انسان نہ صرف کامن سینس سے عاری ہے بلکہ اس کرہِ ارض کے رہن سہن کے لیے اجنبی بھی ہے۔وماعلینا الا البلاغ…