شہدا کے خون کی لاج رکھی گئی!

صرف پانچ دن کے قلیل عرصہ یعنی ایک ہفتہ سے بھی کم مدت میں‘ پاکستان نے جدید جنگوں کی ساخت‘ ہیت‘ دورانیہ ‘ طرز اور اہلیت کے پیشہ ورانہ معیار کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک‘ ٹھٹھک کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر ممالک کے نظریات‘ اب جنگ کی بابت غیر مؤثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ میں کوئی دفاعی تجزیہ کار نہیں ہوں۔ صرف معاملات کو دلیل کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ طالب علم کی دانست میں‘ گزشتہ چند دنوں نے ہمارے ملک کو دنیا کی‘ جناب‘ دنیا کی‘ سب سے مؤثر دفاعی قوت بنا دیا ہے۔ ایشیاء کا نہیں کہہ رہا۔ پورے کرہ ارض کی بات کر رہا ہوں۔ استدلال کیا ہے۔ اس پر نکتہ بہ نکتہ گزارشات پیش کرتا ہوں۔
بھارت کے پاس فرانس کے جدید ترین طیارے Dassault Rafale ہیں۔اس کا مطلب ’’آگ کا طوفان‘‘ ہے۔ ان طیاروں کو کسی بھی فضائیہ کے سر کے تاج کی حیثیت حاصل ہے۔ انیس مئی 1991 کو وجود میں آنے والا رافیل طیارہ ‘ ایک فضائی کرشمہ سمجھا جاتا ہے۔ فرانسیسی فوج‘ بحریہ اور فضائیہ میں زیر استعمال طیارہ کو ہندوستان کی سیاسی قیادت نے ہاتھ پیر جوڑ کر‘ بلکہ منتیں کر کے‘ فرانس سے خریدا تھا۔ اس فروخت میں امریکا کی رضا مندی بھی شامل تھی۔
اس خریداری کی سب سے بڑی وجہ صرف ایک تھی کہ دنیا کی واحد سپر پاورامریکا ‘ ہندوستان کو ایشیاء کا مرد آہن‘ بنانا یا ثابت کرنا چاہتا تھا۔ پروپیگنڈے کے پر لگا کر ‘ جب یہ معرکتہ الآراء ’’ فضائی پرندہ‘‘ ہندوستان کے حوالے کیا گیا تو باقاعدہ انڈیا میں جشن کا سماں تھا۔ ان کے وزیر دفاع نے کھل کر کہا ‘ کہ اب ان کی فضائیہ ‘ ایشیاء میں سب سے جدید اور مؤثر قوت بن چکی ہے۔ عرض کرتا چلوں ‘ کہ فرانس نے رافیل طیارے تعداد میںصرف اور صرف 299بنائے ہیں۔ ہندوستان نے اس کمپنی کے ساتھ 7,87بلین یورو کے چھبیس رافیل خریدنے کا معاہدہ کیاتھا۔ مختلف ممالک میں‘ اس کمپنی کے ساتھ خریداری کے معاہدوں کی دوڑ بھی لگی ہوئی تھی۔
آج سے تقریباً پانچ دن پہلے ہندوستان نے‘ بین الاقوامی سرحدیں عبور کیے بغیر ‘ ستر سے اسی جہازوں کی مدد سے پاکستان پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس میں رافیل طیارے کے اسکواڈرن شامل تھے۔ مگر فرانس اور ہندوستان‘ ایک اہم ترین نکتہ فراموش کر گئے تھے۔ پاکستان اور چین کی قیادت‘ رافیل طیارے کی تمام خوبیوں اور کمزوریوں پر نظر جما چکی تھی۔ اگر یہ بات ‘صرف پندرہ دن قبل‘ فرانس کو کہی جاتی کہ ان کے ’’فضائی تکبر‘‘کے اندر چند خامیاں موجود ہیں تو شائد فرانس اس ملک سے اپنے سفارتی تعلقات ہی ختم کر دیتا۔ مگر‘ صرف ایک رات میں ہر چیز تبدیل ہو گئی۔
اس رات کو پاکستانی فضائیہ کے چالیس طیارے ‘ بڑی خاموشی سے ‘ ہندوستانی جتھے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے ملک کے تمام طیارے B.V.R یعنی نظر کی دیکھنے کی استطاعت سے بہت دور تھے۔ انسانی نظر کی بابت عرض نہیں کر رہا۔ ٹیکنالوجی کی دیکھنے کی اہلیت کی بابت عرض کر رہا ہوں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ دو ملکوں کے درمیان سب سے بڑی فضائی جنگ تھی۔ اس میں روس سے خریدے ہوئے جدید ترین طیارے بھی شامل تھے۔ مگر تیس منٹ سے بھی قلیل مدت میں ‘ پانچ بھارتی طیارے گرا دیے گئے ۔ جن میں تین رافیل بھی شامل تھے۔ کسی کو بھی یقین نہیں آیا کہ بھارتی فضائیہ کا غرور چند لمحوں میں خاک میں مل چکا ہے۔
بھارت نے یہ تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا ۔ مگر لندن بیس کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کر دیا کہ ان کی تیار کردہ ‘ Ejection Seatsمیں تین کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ لندن کی وہ کمپنی ہے ۔ جو دنیا کی بانوے (92) فضائی قوتوں کو Ejection Seats بنا کر دیتی ہے۔ رافیل کے اندر بھی وہی استعمال ہوتی ہے۔
اب فرانس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا تھا کہ وہ تسلیم نہ کرے‘ کہ ان کے فروخت شدہ رافیل طیارے‘ مار گرائے جا چکے ہیں۔ اس ثبوت کے بعد ہماری فضائیہ کے اعلان کو تمام دنیا نے تسلیم کیا۔ جس کے بعد‘ ہندوستان ایئر فورس کو منجمد کر دیا گیا۔ ہمارے ملک پر حملہ کرنے کی سوچ ہی ختم ہو گئی۔ فضائی جنگوں میں پاکستان کی اہلیت اور تربیت نے دنیا کو ہی بدل ڈالا۔ رافیل جہاز کو ’’فضائی دیوتا‘‘ بنانے کے خواب کو برباد کر دیا گیا۔ طیارہ ساز کمپنی کے شیئر ز ‘ صرف ایک رات میں چھ فیصد تک گر گئے۔ پاکستانی فضائیہ نے وہ کارنامہ انجام دیا‘ جس کا تصور کرنا بھی دشوار تھا بلکہ دشوار ہے۔
اب ذرا Haropڈرون کی بابت بتاتا چلوں۔ اسرائیل کی ایروسپیس انڈسٹری MBTنے 1A1 Haropڈرون بنائے تھے۔ اس میں امریکی معاونت شامل تھی۔ یہ میزائل اور ڈرون دونوں کی خصوصیت رکھتا ہے۔ اس میں چھ گھنٹے فضا میں رہنے کی استطاعت ہے۔ اس دورانیہ میں یہ اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی قوت بھی رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس کو دنیا کا جدجد ترین ڈرون گردانا جاتا تھا۔ہندوستان کے پاس ‘110‘ اسی ساخت کے ڈرون تھے۔ اسرائیلی فضائیہ کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کا یہ ڈرون ‘ کبھی تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ منزل پر پہنچ کر خود بخود پھٹ جاتا ہے اور اپنے ہدف کو نیست ونابود کر دیتا ہے۔ بقول ان کے‘ ڈرون کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں گردانا جاتا ۔ غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل ‘ اسی ڈرون سے موت اور تباہی کا کھیل کھیلتے ہیں۔
اس کو چلانے کے لیے ‘ اسرائیلی فضائیہ کے ماہرین‘ ہندوستان میں موجود تھے۔ جب ہندوستان فضائیہ کے اعصاب شل ہو گئے ۔ تو اس تباہ کن ڈرون کو میدان میں اتارا گیا۔ ہندوستان اور اسرائیل نے ایک وقت میں متعدد ڈرون پاکستانی فضاؤں میں داخل کر دیے۔ لاہور‘ کراچی‘ پنڈی اور متعدد شہر اس کے اہداف میں شامل تھے۔ یہ تمام ڈرون پاکستان کی فضا میں داخل ہوئے۔ مگر یہ تمام کے تمام‘ پاکستان نے ختم کر ڈالے۔ ایک اعلامیہ کے مطابق تقریباً 77ڈرون‘ گرا دیے گئے۔ ان سے بہت معمولی سا جانی نقصان پہنچا ۔ مگر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان ڈرون حملوں کی بدولت‘ ملک میں ایک خوف و ہراس سا پھیلا ضرور ۔ مگر اسرائیل اور ہندوستان دونوں ممالک‘ یہ فراموش کر بیٹھے‘ کہ ان کا مقابلہ پاکستان سے ہے۔
جس کے پاس جواب دینے کی طاقت‘ حد درجہ مؤثر ہے۔ ہندوستان کی یہ ترکیب بھی ناکام ہو گئی۔ بلکہ پاکستان کے کئی شہروں میں تو یہ ڈرون مذاق بن کر رہ گئے۔ شہری ان کے گرنے کے بعد ‘ ملبے کے اردگرد خوشیاں مناتے نظر آئے۔ بھارت کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ان کے مہلک ترین ڈرون‘ اس طرح کے مزاح کا باعث بن جائیںگے۔ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ہندوستان کا یہ حربہ بھی دھول چاٹ گیا۔
اس مرحلہ کے بعد‘پاکستانی عسکری قیادت نے ’’آپریشن بنیان المرصوص‘‘ شروع کیا ۔ جس کے تحت ہمارے ملک کی طرف سے ہندوستان پر میزائلوں کی بارش قہربن کر نازل ہوئی۔ دشمن کے فضائی ٹھکانوں‘ سپلائی ڈپو‘ آرٹلری پوسٹوں اور آپریشنل سینٹرز کو حد درجہ کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ ادھم پورایئر بیس پر‘ روس کے جدید ترین میزائل ‘ S,400 کی ایک بیٹری کو فنا کر دیا گیا۔ بیاس کے نزدیک ‘ براہموس میزائل کے ایک اسٹور کوبھی مہلک نقصان پہنچا۔ پٹھان کوٹ ‘ جالندھر‘ سری نگر اور متعدد جگہ پر ہمارے میزائلوں نے تباہی مچا دی۔ مگر یہاں‘ S-400پر بات کرنا ضرور ی ہے۔ انڈیا کے پاس ان مہنگے ترین میزائلوں کی تین بیٹریاں ہیں۔ اور یہ روس میں بنائے گئے تھے۔ زمین سے فضا میں مار کرنے والے یہ S-400 میزائل بھی شہکار گردانے جاتے تھے۔ہندوستان نے 2018ء میں جب انھیں اپنی فضائیہ میں شامل کیا گیا تھا۔ جو خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے۔
ایک بیٹری کی قیمت 1.5بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ مگر پاکستان نے اپنی میزائلوں کی قوت سے اس تکبر کو خاک میں ملا دیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا کہ ہندوستان کو یقین ہو گیا کہ اگر جنگ پھیل گئی تو پاکستان اسے فنا کر دے گا۔ اس موقعہ پر بھارت نے امریکا سے درخواست کی کہ جنگ بندی کرا دی جائے جو ان کی بقا کے لیے ضروری تھی۔ بہر حال‘ پاکستان نے حد درجہ ذمے داری کا ثبوت دیا ۔ اور جنگ بندی کو تسلیم کر لیا۔ اس مرحلہ وار لڑائی کے بعد بھارت اب اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ اور اس کے مکمل طور پر ’’پاگل میڈیا‘‘ کو سانپ سونگھ چکا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں‘ روس‘ اسرائیل‘ ہندوستان اور امریکا کے ہر مفروضے کو شکست دے ڈالی ہے۔ بھارت کو ایشیاء کے اندر‘ طاقت ور ترین ملک ثابت کرنے کی کوشش بھی ختم ہو گئی ہے۔ فضائی اور میزائل کی جنگوں کی ترتیب ہی بدل گئی۔ اور پاکستان‘ پوری دنیا کے سامنے ایک مضبوط ملک بن کر سامنے آیا۔
یہ حددرجہ اہم بات ہے۔ اس مرحلہ پر ‘ملک کی عسکری اور فضائی طاقت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔جنھوںنے کامیاب ترین حکمت عملی سے پاکستان کے دفاع کو حقیقت میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں بدل ڈالا۔ ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ہمارے صدر محترم اور اہم ترین حکومتی خاندانوں نے اس نازک ترین موقعہ پر چپ کا روزہ کیوں رکھا؟ یہ معاملہ سیاسی ہے۔ اس پر پھر کسی اور وقت لکھوں گا۔ مگر اس وقت اپنے دفاعی نظام کو سلام۔ جنھوں نے شہدا کے خون کی لاج رکھ لی!