بھارت اور پاکستان کے دفاعی ہتھیاروں کا ایک جائزہ

اکستان کا میزائل پروگرام
پاکستان کا میزائل پروگرام کروز اور میدانِ جنگ میں استعمال ہونے والے ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائلوں کے علاوہ کم اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں پر مشتمل ہے۔ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائلوں میں ہتف سیریز کے ہتف ون اور نصر میزائل شامل ہیں جو 60 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کے بعد مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی باری آتی ہے جن میں 200 کلومیٹر رینج والا ابدالی، 300 کلومیٹر تک مار کرنے والا غزنوی، 350 کلومیٹر کی رینج والا رعد، 700 کلومیٹر کی رینج والا بابر اور ساڑھے سات سو سے ایک ہزار کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا شاہین ون میزائل شامل ہیں۔پاکستان کے میڈیم رینج میزائلوں میں غوری ون اور ٹو، ابابیل اور شاہین ٹو اور شاہین تھری شامل ہیں۔ان میں سے غوری ون 1500 کلومیٹر جبکہ غوری ٹو دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر نشانہ لگا سکتے ہیں جبکہ ابابیل میزائل کی رینج 2200 کلومیٹر ہے۔
شاہین ٹو اور تھری پاکستان کے سب سے زیادہ فاصلے پر نشانہ بنانے والے میزائل ہیں جن کی رینج 2500 سے 2750 کلومیٹر تک ہے۔ابابیل اور شاہین تھری ملٹیپل ری انٹر وہیکل یا ایم آر وی کہلاتے ہیں جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ کو شکست دینے اور بے اثر کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ماہرین کے خیال میں یہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل سسٹمز ہیں۔کینبرا کی نیشنل یونیورسٹی میں سٹریٹیجک اور ڈیفینس سٹڈیز کے استاد ڈاکٹر منصور احمد کے مطابق ابابیل جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مختلف اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔براہموس انڈیا کے کروز میزائلوں میں سے ایک ہے جو جوہری ہتھیار بھی لے جا سکتا ہے
اس کے مقابلے میں انڈیا کا میزائل پروگرام 250 سے 600 کلومیٹر تک مار کرنے والے پرتھوی میزائلوں سے لے کر 1200 سے 8000 کلومیٹر تک مار کرنے والے اگنی سیریز کے میزائلوں کے علاوہ نربھے اور براہموس سیریز کے کروز میزائلوں پر مشتمل ہے۔اگنی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہیں،جن میں اگنی-فائیو بھی شامل ہے اور اس کی رینج سات سے آٹھ ہزار کلومیٹر تک ہے۔انڈیا کا دھنش میزائل کم فاصلے تک مار کرنے والا اور بحری جہاز سے داغا جانے والا بیلسٹک میزائل ہے۔ یہ پرتھوی میزائل سیریز کا تیسرا ویرینٹ ہے جس میں پرتھوی ون، پرتھوی ٹو اور پرتھوی ایئر ڈیفنس انٹرسیپٹر شامل ہیں۔ دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مائع ایندھن سے چلنے والا میزائل ہے اور جوہری یا روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ انڈیا کا کے-15 یا بی-05 میزائل جسے ساگریکا یا شوریا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، آبدوز سے داغا جانے والا بیلسٹک میزائل ہے۔ اس کی رینج تقریباً 700 کلومیٹر ہے۔سپرسونک براہموس روایتی کے ساتھ ساتھ ایک جوہری ہتھیار بھی ہے۔ یاد رہے سنہ 2022 میں ایک براہموس میزائل پاکستان میں بھی آن گرا تھا جس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے داغ دیا گیا تھا۔
انڈیا کی جانب سے نومبر 2024 میں طویل فاصلے تک مار کرنے والا ہائپر سونک میزائل کا بھی کامیاب تجربہ کیا گیا جسے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ‘ملک کے لیے بڑی کامیابی اور ایک ‘تاریخی لمحہ قرار دیا تھا۔یہ ہائپرسونک میزائل 1500 کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور فضا، زمین اور پانی تینوں جگہوں سے دشمن پر حملہ کر سکتا ہے۔ہائپرسونک میزائل سے مراد وہ میزائل ہیں جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز رفتار سے اپنے ہدف کی طرف بڑھتے ہیں۔ ان کے برعکس سب سونک میزائل آواز کی رفتار سے تیز فاصلہ طے نہیں کر سکتے جبکہ سپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے صرف دو سے تین گنا تیز چلتا ہے۔
ڈرونز
پریڈیٹر کو دنیا کا سب سے کامیاب اور خطرناک ڈرون مانا جاتا ہے انڈیا اور پاکستان دونوں ہی اپنے اسلحہ خانے میں عسکری ڈرونز کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دونوں کی جانب سے نہ صرف کئی غیر ملکی ڈرونز خریدے گئے ہیں بلکہ خود بھی اس ٹیکنالوجی کو تیار کیا گیا ہے جو بِنا پائلٹ کے دشمن پر نگرانی، جاسوسی یا اہداف کو نشانے بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز انتہائی اونچائی پر دیر تک پرواز کرنے اور ریڈار میں آئے بغیر زمین پر فوج کی سرگرمیوں، ان کی تعیناتیوں، اہم تنصیبات، نئی تعمیرات اور فوجی ٹھکانوں وغیرہ کی موثر نگرانی اور مخصوص ہدف کو تباہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔اگر ڈرونز کے لحاظ سے انڈیا اور پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کا موازنہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے ماضی قریب میں اس میں اضافہ کیا ہے۔دفاعی امور کے تجزیہ کار راہل بیدی نے اس بارے میں بی بی سی کو بتایا تھا ‘انڈیا کو اندازہ ہے کہ آئندہ دو، چار برس میں اس کے پاس تقریباً پانچ ہزار ڈرونز ہوں گے۔اکتوبر 2024 میں، انڈیا نے امریکہ کے ساتھ ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے 31 پریڈیٹر ڈرون خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ پریڈیٹر کو دنیا کا سب سے کامیاب اور خطرناک ڈرون مانا جاتا ہے۔
راہل بیدی کے مطابق ویسے تو پاکستان کے پاس ‘انڈیا سے کم ڈرون ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے پاس موجود ڈرونز میں مختلف صلاحیتیں ہیں اور یہ 10 سے 11 مختلف ساخت کے ہیں۔پاکستان کے پاس مختلف اقسام کے ڈرونز موجود ہیں، جن میں مقامی طور پر تیار کردہ اور درآمد شدہ دونوں شامل ہیں۔مقامی سطح پر تیار کردہ ڈرونز میں شہپر سیریز (ون، ٹو، تھری)، براق اور عقاب شامل ہیں۔شہپر تھری ایک جدید میڈیم آلٹیٹیوڈ لانگ اینڈورنس جنگی ڈرون ہے جو 30 گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے اور میزائلوں سے لیس ہے، جبکہ براق پہلا پاکستانی جنگی ڈرون ہے جسے 2015 میں دہشتگردوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔عقاب ڈرون ٹیکٹیکل مقاصد (جیسے نگرانی اور فائر کریکشن) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ڈرونز مکمل طور پر پاکستان میں تیار کیے گئے ہیں، صرف چند اجزا جیسے انجن درآمد کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان نے ترکی اور چین سے بھی جدید ڈرونز درآمد کیے ہیں جن میں بیراکتر آقنجی ٹی بی ٹو، بیراکتر آقنجی اور چینی سی ایچ فور شامل ہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور نگرانی، ہدف کو نشانہ بنانے اور طویل فاصلے تک پرواز کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جوہری ہتھیار
انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں لیکن گلوبل فائر پاور نے اپنی رپورٹ میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ادارے کا اس متعلق موقف ہے کہ وہ اپنے جائزوں میں جوہری صلاحیت کو زیر غور نہیں لاتے۔تاہم سویڈش تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق جوہری وار ہیڈز کے لحاظ سے دونوں ممالک ہم پلہ دکھائی دیتے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق جہاں انڈیا کے پاس اندازاً 172 ایٹمی وار ہیڈز ہیں وہیں پاکستان کے پاس ایسے وار ہیڈز کی تعداد اندازاً 170 ہے۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں ممالک نے ان میں سے کتنے جوہری وار ہیڈز کارروائی کے لیے تیار حالت میں رکھے ہوئے ہیں۔’سپری’ کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا سے مقابلے کے لیے جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے جب کہ بھارت کی توجہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں پر ہے یعنی ایسے ہتھیار جو چین کو بھی نشانہ بنا سکتے ہوں۔چین نے، جو انڈیا اور پاکستان دونوں کا پڑوسی اور دنیا کی تیسری سب سے بڑی ایٹمی طاقت بھی ہے، جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں 22 فیصد اضافہ کیا ہے اور اس کے پاس موجود وار ہیڈز کی تعداد 410 سے بڑھ کر 500 تک پہنچ چکی ہے۔
لندن میں قائم ایک تھنک ٹینک نے دونوں ممالک کے مابین حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں ان کی فوجی طاقت کا موازنہ پیش کیا ہے۔ بھارت کو بظاہر روایتی ہتھیاروں سمیت فوجی افرادی قوت کے حساب سے پاکستان پر واضح عددی برتری حاصل ہے۔بھارت کے پاس 172 نیوکلئیر وار ہیڈز ہیں جبکہ پاکستان کے پاس بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں یعنی 170 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
بھارتی زیرانتظام کشمیر میں 22 اپریل کوسیاحوں پر کیے گئے ایک دہشت گردانہ حملے میں 26 افرادکی ہلاکت نے روایتی حریف پڑوسی ممالک بھارت اور پاکستان کے مابین ایک نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے اور اس کشیدگی کے کسی بڑے تنازعے میں بدلنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسی انٹیلی جنس معلومات ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت اس کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
فوجی اہلکاروں کی تعداد
بھارتی مسلح افواج میں 1.4 ملین فعال اہلکار ہیں۔ ان میں سے بری فوج میں 1,237,000 بحریہ میں 75,500 فضائیہ میں 149,900 اور کوسٹ گارڈ میں 13,350 اہلکار شامل ہیں۔اس کے مقابلے میں پاکستان کے فعال فوجی اہلکاروں کی تعداد 700,000 سے کم ہے، جن میں سے 560,000 بری فوج میں 70,000 فضائیہ میں اور 30,000 بحریہ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
بھارتی توپ خانے میں شامل 9,743 ہتھیاروں کے مقابلے میں پاکستان کے پاس 4,619 ہتھیار ہیں جبکہ بھارت کے پاس موجود اہم جنگی ٹینکوں کی تعداد 3,740 جبکہ پاکستان کے پاس ان ٹینکوں کی تعداد 2,537 ہے۔پاکستانی فضائیہ کے پاس اپنی بھارتی حریف کے مقابلے میں لڑاکا طیاروں کی تعداد کم ہے تاہم چین نے پاکستانی فضائیہ کو جدید کرنے میں اسلام آباد حکومت کی بہت مدد کی ہے۔