ترکی و اسرائیل میں تناؤ

download-34.jpeg

بشار الاسد کے زوال کے بعد، اسرائیل اور ترکی کے تعلقات میں شدید تناؤ – آذربائیجان ثالثی کردار میں

دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ نئے صدر احمد الشراع، جو کہ ماضی میں جہادی رہ چکے ہیں، کو ترکیہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جب کہ اسرائیل نے شام میں اسد حکومت کے باقی ماندہ فوجی ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے ہیں تاکہ مستقبل کے ممکنہ خطرات کا سدِ باب کیا جا سکے۔

اسرائیل نے کوہِ حرمون کے سرحدی علاقے پر غیر واضح قبضہ جما لیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ وہ جنوبی شام میں دروز اقلیت کی خودمختاری کی حمایت کا ارادہ رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر حالات مزید بگڑتے ہیں تو اسرائیل اور ترکی کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم بھی خارج از امکان نہیں۔

تاہم، دونوں ممالک اس تصادم سے اجتناب چاہتے ہیں۔ اسرائیل کی ترجیح غزہ، ایران کے جوہری پروگرام، اور خطے میں ایران کے حامی گروہوں پر مرکوز ہے۔ دوسری جانب، ترکی جانتا ہے کہ اسرائیل سے محاذ آرائی اس کی امریکا و نیٹو سے وابستگی کو نقصان پہنچا سکتی ہے، شام کی تعمیرِ نو کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں، اور ایف-35 طیارہ منصوبے سے ترکی کی معطلی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

مزید یہ کہ اس قسم کا تناؤ اسرائیل و امریکا کی کرد گروہوں کی حمایت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، جنہیں ترکی اپنی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

ان حالات میں، آذربائیجان ایک کلیدی سفارتی کردار ادا کر رہا ہے۔ ماضی میں ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کرنے والا باکو ایک بار پھر فعال نظر آتا ہے۔ آذربائیجانی سفارتکار حکمت حاجی‌اف نے حالیہ ہفتوں میں اسرائیل اور ترکی کے درمیان متعدد سفارتی ملاقاتیں ترتیب دیں تاکہ فوجی تصادم سے بچا جا سکے۔

رواں ماہ آذربائیجان نے دونوں ممالک کے حکام کے مابین مذاکرات کی میزبانی کی، اور اطلاعات ہیں کہ ایک باہمی معاہدے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔

ادھر، شام کے صدر احمد الشراع نے امریکی حکام کو اشارہ دیا ہے کہ اگر اسرائیل جنوبی شام میں اپنی کارروائیاں روکے اور امریکا شام کی علاقائی سالمیت کی ضمانت دے، تو دمشق ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہونے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ موقف ترکی کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔

ایران ان تمام پیش رفتوں کو شدید تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ تہران کو خدشہ ہے کہ اسرائیل اور ترکی کے مابین قربت خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو محدود کر دے گی۔ ایران کو خاص طور پر ترک اقلیتوں کی بیداری اور ترک اثرات کے پھیلاؤ پر بھی تشویش ہے۔

اس کے علاوہ، شمالی شام پر ترکی اور جنوبی حصے پر اسرائیل کے کنٹرول نے حزب اللہ کے لیے ایران کی سپلائی لائنز کو بھی متاثر کیا ہے۔

سب سے نازک معاملہ آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت ہے، جسے ایران بعض اوقات "اسٹریٹیجک محاصرے” کے طور پر دیکھتا ہے۔ باکو اور تل ابیب کی مشترکہ کوششیں، جن میں ایران مخالف خفیہ سرگرمیاں بھی شامل ہیں، تہران کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

ایسی صورت حال میں، اسرائیل اور آذربائیجان کا اشتراک ایک واضح اصول پر قائم ہے: "ایک کا فائدہ، دوسرے کا فائدہ۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے