فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر

اب سے دو روز قبل ( چوبیس اکتوبر ) ہالوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کے عالمی دن کے موقع پر پولینڈ میں آشوٹز کنسنٹریشن کیمپ میں ہزاروں لوگوں نے نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ان مظاہرین میں اکثریت اسی برس قبل ہالوکاسٹ میں بچ جانے والے یہودیوں کی نئی پود کی تھی۔بیشتر کے ہاتھوں میں اسرائیلی پرچم تھے۔مگر ان نوجوانوں کے ہمراہ یہ بے حس بے خبری بھی چل رہی تھی کہ ان کے جو پرکھے نازیوں کے نسل کش کیمپوں سے زندہ بچ کے فلسطین پہنچے انھوں نے وہاں کی مقامی آبادی کو اپنی زمین سے اکھاڑنے اور وجود مٹانے کے لیے لگ بھگ وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو نازیوں نے ان کے ساتھ برتے تھے۔
جس طرح آج کی اسرائیلی پود نے غزہ کے کنسنٹریشن کیمپ پر پیاس ، بھوک اور موت برسائی ہے۔بالکل اسی طرح انیس سو بیالیس تینتالیس میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے یہودی محلوں کا محاصرہ کر کے نازیوں نے ایسا ہی سلوک کیا تھا۔
مگر ہیروشیما ناگاساکی کی جوہری تباہی سے جاپانیوں نے جس طرح امن کا سبق سیکھا اور خود کو ایک توسیع پسند جنگجو قوم سے انسانیت کی پرچارک قوم میں بدلا۔اس کے عین برعکس ہٹلر کے ہالوکاسٹ کیمپوں میں بچ جانے والوں اور ان کی اگلی نسلوں نے نسل کشی کے تجربے سے انسانیت سے بلاامتیاز محبت کا سبق سیکھنے کے بجائے ہٹلری ہتھکنڈوں کو مزید جدید اور بھیانک بنا کر موجودہ مرحلے تک پہنچا دیا۔
ہٹلر میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ اس نے نسل کش کیمپوں میں لاکھوں انسانوں کے قتل کو مشتہر کرنے کے بجائے جرمنوں کی اکثریت اور باقی دنیا سے اس خونی ڈرامے کو حتی الامکان پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی۔مگر اس کے صیہونی وارث اپنی ایک ایک نسل کش حرکت کو فخریہ انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے جشن کی شکل دے رہے ہیں۔ہٹلر کے مظالم پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے ممالک آج کے ہٹلری ہتھکنڈوں کو اسرائیلیوں کا حق ِ دفاع قرار دے رہے ہیں۔
غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل ریاستی حقِ دفاع کے نام پر ’’ دھشت گردی ‘‘ کا قلع قمع کر رہا ہے مگر آٹھ دہائی قبل وارسا کے یہودی نازی قبضے کے خلاف جو مزاحمت کر رہے تھے وہ جبر کے خلاف دلیرانہ بغاوت کے نام پر ہر سال منائی جاتی ہے۔
وارسا کی نازی مخالف مسلح یہودی بغاوت انیس اپریل تا سولہ مئی انیس سو تینتالیس (انتیس دن) جاری رہی۔ اس مختصر سی بغاوت کی قیادت دو مقامی صیہونی گروہوں نے کی۔ان کے پاس چند اسمگلڈ رائفلیں ، دو چار درجن چھینے گئے گرینیڈ ، آتش گیر مادے سے بھری چند سو بوتلیں (مالوٹوف کاک ٹیل ) ڈنڈے اور سریے تھے۔
وارسا گھیٹو کہلائی جانے والی یہ آبادی مشرقی یورپ کی سب سے گنجان یہودی بستی تھی۔آٹھ سو تیس ایکڑ رقبے میں چار لاکھ انسان ٹھنسے ہوئے تھے۔یعنی فی کمرہ ساڑھے سات نفوس۔جولائی تا ستمبر انیس سو بیالیس نازی انتظامیہ نے روزانہ اس بستی سے سات ہزار یہودیوں کو صبح اور شام کی دو ٹرینوں میں بھر کے اسی کیلومیٹر دور قائم تریبلانکا نسل کش کیمپ کو روانہ کیا۔ان تین ماہ میں لگ بھگ پونے تین لاکھ مکینوں کو جبری طور پر موت کے سفر پر بھیجا گیا۔
ابتدا میں ان باشندوں کو یہ کہہ کر ٹرین میں سوار کروایا جاتا کہ انھیں ایک نئی جگہ بہتر زندگی گذارنے کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔ زادِ راہ کے طور پر ہر کنبے کو خوراک کا تھیلا بھی دیا جاتا۔مگر بستی بدری کا سلسلہ شروع ہونے کے چند ہفتے بعد ہی یہاں کے مکینوں کو اندازہ ہو گیا کہ انھیں دوبارہ آبادکاری کے بہانے موت کے کیمپوں میں بھیجا جا رہا ہے۔اس شبہے کی ٹھوس بنیاد یہ تھی کہ روانہ ہونے والوں کا پیچھے رہ جانے والوں سے کبھی بھی کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔
چنانچہ وارسا گھیٹو کے رہائشیوں نے ٹرینوں میں سوار ہونے سے انکار کرنا شروع کر دیا۔مگر اس بستی کے مکینوں پر ہی مشتمل مقامی پولیس کو نازیوں نے یہ کام سونپا کہ روزانہ اتنے باشندے جمع کر کے روانہ کرنے میں مدد دے۔ ورنہ انھیں بھی ٹرین میں بٹھا دیا جائے گا۔
جنوری انیس سو تینتالیس تک جب یہ گھیٹو آدھے سے زیادہ خالی کروا لیا گیا تو مکینوں نے نازی اہلکاروں اور ان کی ایجنٹ مقامی پولیس کے خلاف ہفتے بھر کی بھرپور مزاحمت کی اور چند دنوں تک ان کی منتقلی کا کام معطل ہو گیا۔اس دوران مقامی یہودیوں نے خود کو بچانے کے لیے اپنے تئیں حفاظتی باڑھیں بنانے اور حملے کی صورت میں چھپنے کا انتظام شروع کر دیا۔ ان کے پولینڈ کی زیرِ زمین قومی مزاحمتی تحریکوں سے روابط استوار ہوئے اور چھوٹا موٹا اسلحہ بھی اسمگل ہو کر اندر آنے لگا۔
انیس اپریل انیس سو تینتالیس کو وارسا گھیٹو میں بغاوتِ عام شروع ہو گئی۔مکینوں نے اپنی ہی برادری کے چند غدار پولیس اہلکاروں اور مخبروں کو ٹھکانے لگا دیا۔ان کی مدد کو بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں پر سوار نازی دستے آئے تو انھیں بھی آتشگیر مادے سے بھری بوتلیں پھینک کے اندر آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔مگر مقابلہ برابری کا نہیں تھا۔
نازیوں نے بستی پر بمباری کی۔گھروں کو ترتیب وار نذرِ آتش کرنا شروع کیا۔انڈر گراونڈڈ سیوریج پائپوں میں پناہ لینے والے انسانوں کو باہر نکالنے کے لیے دھوئیں کے بم اور دستی بم بے دریغ پھینکے گئے۔اس کے باوجود بغاوت پر قابو پانے میں انتیس دن لگ گئے۔
ان انتیس دنوں میں بستی کے تیرہ ہزار مکین مارے گئے۔ایک سو دس جرمن فوجی ہلاک و زخمی ہوئے۔وارسا گھیٹو کی بغاوت نازی مقبوضہ یورپ میں پہلی بڑی شہری مزاحمت تھی۔اس سے حوصلہ پا کر اگلے برس وارسا کا پورا شہر نازیوں کے خلاف کئی ہفتے ڈٹا رہا۔
یہودی بستی کو بلڈوزروں سے زمیں بوس کرنے کے بعد وہاں زندہ بچ جانے والے لگ بھگ پچاس ہزار جوانوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو تریبلانکا اور آشوٹز منتقل کر کے گیس چیمبرز میں بھیج دیا گیا۔
اگر آپ وارسا گھیٹو کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر دیکھیں تو لگتا ہے گویا آج کے غزہ کی تصاویر ہیں۔نازی تو تاریخ کے ہاتھوں ختم ہو گئے مگر ان کی بھٹکی ہوئی ارواح نے آسانی سے قالب بدل لیا اور وہ آج تک آشوٹز ، وارسا اور تریبلانکا سے بہت دور فلسطین میں رقصاں ہیں۔