بی جے پی ملکی سیاست میں نئے چہروں اور ناموں کو سامنے لا کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟
نڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں وزرا اعلیٰ کے عہدوں کے لیے نئے چہروں کا اعلان کیا ہے۔شیوراج سنگھ چوہان، وسندھرا راجے اور رمن سنگھ جیسے تجربہ کار رہنماؤں کو منتخب کرنے کے بجائے پارٹی نے موہن یادیو، بھجن لال شرما اور وشنو دیو سائی کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ دیا ہے۔بی جے پی نے ایک ہفتہ سے زیادہ غور و خوض کے بعد ان تینوں ناموں کی منظوری دی ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دو نائب وزرائے اعلیٰ مقرر کیے ہیں۔ان انتخابات کو 2024 کے لیے بی جے پی کی بڑی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔انڈیا میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے ان عہدوں پر منتخب ہونے والے لوگوں کے ذریعے ذات پات کی مساوات کو برقرار رکھنے کی بھی کوشش کی ہے تاکہ حزبِ اختلاف لوک سبھا یعنی ایوانِ زریں کے انتخابات میں ذات پات کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرسکے۔جہاں بی جے پی کی سیاست میں یہ نئے نام سامنے آئے ہیں وہیں یہ اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن اڈوانی کے دور میں منتخب ہونے والے وزرائے اعلیٰ کے دور کے خاتمے کا بھی اشارہ دیتا ہے۔حالانکہ انتخابات سے پہلے بی جے پی نے تینوں سابق وزرائے اعلیٰ کو ڈھکے چُھپے انداز میں یہ پیغام دینا شروع کر دیا تھا کہ اب نئے چہروں کو ذمہ داری دی جائے گی۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ پارٹی نے ان ریاستوں کے اسمبلی انتخابات وزرائے اعلیٰ کے نام پر نہیں لڑے تھے۔ بلکہ پوری مہم وزیر اعظم مودی اور ان کے وعدوں کے گرد گھومتی دکھائی دے رہی تھی۔دوسرا یہ کہ بی جے پی نے ان ریاستوں میں کئی ممبران پارلیمنٹ کو اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے کا کہا اور نتائج کے بعد ان میں جو کامیاب ہوئے پارٹی نے اُن سے استعفیٰ لے لیا۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بڑے ناموں یا رہنماؤں کو نظر انداز کرکے اور ان کی جگہ نئے چہروں پر داؤ لگا کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس سے کیا اشارہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی جیت میں او بی سی کمیونٹی (پسماندہ طبقے) کے ووٹروں کا بڑا کردار رہا ہے۔ یہاں کانگریس ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری اور ریزرویشن جیسے مسائل کی مدد سے اس طبقے کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن 2018 کے مقابلے میں بی جے پی زیادہ او بی سی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ موہن یادو کا انتخاب اسی کا نتیجہ سمجھا جا رہا تھا.وہیں، چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی تینوں ریاستوں میں بی جے پی نے اس بار مقامی آبادی اور قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔ پارٹی نے ان ریاستوں میں کل 101 ایس ٹی نشستوں میں سے 56 فیصد پر کامیابی حاصل کی۔چھتیس گڑھ میں، جہاں 90 میں سے 29 نشستیں ایس ٹی کے زیر اثر ہیں، پارٹی کا اثر سب سے زیادہ تھا۔ 2018 میں بی جے پی نے صرف تین نشستوں میں کامیابی حاصل کی تھی جو اس بار 17 تک پہنچ گئی ہیں۔ پسماندہ قبائل یعنی ایس سی ملک کی کل آبادی کا تقریبا نو فیصد ہیں۔سینئر صحافی رادھیکا راماشن نے وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے سامنے آنے والے چہروں کے انتخاب پر بی جے پی کی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ان تینوں ریاستوں میں انھیں جو حمایت ملی ہے وہ نہ صرف مضبوط ہونی چاہیے بلکہ اسے 2024 کے انتخابات تک بڑھایا جانا چاہیے۔‘