شام کی سرد جنگ

شام میں ترکی اور اسرائیل کو ایک دوہری صورتحال کا سامنا ہے۔ ترکی اور اسرائیل کی قسمت شام میں ترکی کے اثرورسوخ میں اضافے پر منحصر ہے۔ یروشلم پوسٹ شام پر اسرائیل کے حملوں کے بارے میں ترکی کے محتاط موقف کے بارے میں لکھتا ہے: "ماضی کے برعکس جب اردگان اسرائیل کی ہر جارحیت کے خلاف سخت اور دھمکی آمیز موقف اختیار کرتے تھے، اس بار پالمیرا کے قریب T-4 اڈے جیسے فوجی اڈوں پر اسرائیلی حملوں کے بعد ترکی کا ردعمل غیر متوقع طور پر محتاط اور پرسکون تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے واضح طور پر ان حملوں کو انقرہ کے لیے ایک پیغام سمجھا ہے لیکن اردگان خاموش ہیں۔” صہیونی ذرائع ابلاغ نے مزید وضاحت کی ہے کہ شام میں اسرائیل کا رویہ جارحانہ ہے اور ماضی کے مقابلے میں بدل گیا ہے۔ ماضی میں، اسرائیل نے حماس یا حزب اللہ جیسے خطرات کو بحران کی طرف بڑھنے دیا اور پھر مداخلت کی لیکن شام میں وہ ایک نیا حربہ استعمال کر رہا ہے: پیشگی کارروائی۔ فوجی اڈوں پر حملہ کرنا جہاں ترکی موجود رہنے میں دلچسپی رکھتا ہے اسرائیل کی اس نئی ڈیٹرنس پالیسی کی ایک مثال ہے۔ دوسری جانب مڈل ایسٹ مانیٹر کے مطابق ترکی اور اسرائیل شام میں کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ دونوں فریقوں کے فوجی دستوں کے درمیان ناخواستہ جھڑپوں کو روکا جا سکے۔ یہ مذاکرات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب اسرائیل نے شام میں فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، جس میں تیاس (T-4)بھی شامل ہے جہاں ترکی نے اپنی افواج کو تعینات کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات دونوں فریقوں کو مستقبل میں ممکنہ تصادم سے دور رکھ سکتے ہیں؟ کیا ترکی کی محتاط پالیسی اسرائیل اور ترکی کے درمیان تنازع کو روک سکتی ہے؟ اس تناظر میں پہلا مسئلہ مغربی ایشیائی طاقتوں کے تسلط کو روکنے میں اسرائیل کا کردار ہے۔ تاریخی لحاظ سے خاص طور پر اسلام کے عروج کے بعد، مغربی ایشیائی خطہ بالادستی کے لیے تین طاقتوں، ایرانی، عرب اور ترکی کے درمیان کشمکش کا شکار رہا ہے۔ یہ برتری ایک زمانے میں خلافت عرب اور دوسرے وقت خلافت عثمانیہ نے حاصل کی۔ فی الحال، ان تین طاقتوں میں سے کوئی بھی خطے کی بالادستی نہیں رکھتی لیکن اگر ان تین طاقتوں میں سے کوئی ایک سپرپاور بن جائے تو کیا ہو گا؟ اس صورت میں مغربی ایشیائی خطے میں نظم و نسق کی ضمانت علاقائی بالادستی کی خواہشات کے مطابق دی جاتی ہے اور خطے میں قوانین اور بین ریاستی اصولوں کو علاقائی بالادستی کے ذریعے دوبارہ لکھا جاتا ہے۔ یہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے کیونکہ اسرائیل خطے کے ایک بن بلائے رکن کے طور پر اس صورت حال کا محتاج ہے کہ خطے میں عدم استحکام رہے اور انارکی پھیلی رہے۔ نتیجے کے طور پر اسرائیل تین علاقائی طاقتوں میں سے کسی ایک کو مغربی ایشیا کی بڑی طاقت بننے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے اس طرح کی حکمت عملی کی امریکی وجوہات بھی ہیں۔ امریکہ عالمی سطح پر اپنے تسلط میں زوال محسوس کر رہا ہے لہذا حساس عالمی خطوں میں کسی بھی طاقت کو ابھرنے سے روکنے پر مجبور ہے تاکہ دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کے طور پر باقی رہے۔
اس وقت مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی پالیسی سہ فریقی کنٹینمنٹ میں سے ایک ہے جو کہ تینوں علاقائی طاقتوں، سعودی عرب، ترکی اور ایران میں سے کسی کو بھی علاقائی بالادستی نہیں بننے دیتی کیونکہ اگر یہ ممالک خطے کی غالب طاقت بن جاتے ہیں تو یہ انہیں دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کا راستہ بھی فراہم کرے گا۔ اگر ہم اس بات پر توجہ دیں کہ اسرائیل مغربی ایشیا خطے میں طاقت کی امریکی تقسیم میں نمائندگی کا کردار ادا کر رہا ہے تو اسرائیل کی سرگرمیوں کی دوسری وجہ بھی واضح ہو جاتی ہے۔ لہذا اگرچہ اسرائیل اندرونی مشکلات کی بناء پر مغربی ایشیا خطے کو مستحکم اور طاقتور نہیں دیکھنا چاہتا لیکن اس کی ایک اور وجہ امریکی پراکسی کا کردار ادا کرنا ہے۔ گذشتہ تمام سالوں میں اسرائیل اور امریکہ کا ایران سے مقابلہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایران خطے کی غالب طاقت بننے کا بہترین موقع رکھتا ہے۔ امریکی اور صیہونی حکمرانوں کی جانب سے خاص طور پر "ایران کو جوہری طاقت نہ بننے دینے” پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں ایران خطے کی غالب طاقت بن سکتا ہے جو صیہونیوں اور یقیناً امریکیوں کو بالکل پسند نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا مطالب کا ترکی سے کیا تعلق ہے؟ شام میں بشار الاسد حکومت کے زوال اور شمالی افریقہ خاص طور پر سوڈان اور لیبیا میں میں ترکی کی سرگرمیوں کے باعث ترکی کی طاقت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علاقائی سطح پر ترکی کی بالادستی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ سعودی عرب اور حتی متحدہ عرب امارات کی جانب سے ابومحمد الجولانی کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ جس طرح اسرائیل نہیں چاہتا کہ ترکی خطے میں غالب طاقت بنے اسی طرح علاقائی ممالک بھی یہ نہیں چاہتے۔
لہٰذا یہ واضح ہے کہ خاص طور پر شام میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان محاذ آرائی کا دور شروع ہو چکا ہے۔ شام ترکی اور اسرائیل کے درمیان بفر زون سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف ترکی کی طاقت کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ اسی وجہ سے بشار الاسد کے زوال کے بعد پہلے دنوں میں اسرائیل نے شام کے اسلحے اور تنصیبات پر بمباری کرکے ترکی کو طاقتور اتحادی بنانے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ تناؤ فوجی تصادم کا باعث بنے گا؟ اس تناظر میں سب سے پہلے غور طلب بات یہ ہے کہ ایران کے پاس اب بھی اسرائیل کے نقطہ نظر سے علاقائی بالادستی بننے کا پہلا موقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی رژیم کی توجہ ایران پر مرکوز ہے۔ اسرائیل نے بنیادی طور پر ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی اپنا فوجی ڈھانچہ تیار کیا ہے لہذا یہ قابل ذکر ہے کہ ترکی، اسرائیل کی اولین ترجیح نہیں ہے۔ دوسرا نکتہ ٹرمپ انتظامیہ کی موجودگی ہے۔ ترکی امریکیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ترکی پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں امریکہ سے بڑی مقدار میں ہتھیار خریدنے پر آمادہ ہے۔ پس ترکی اسرائیل تعلقات کی قسمت کا انحصار بڑی حد تک امریکہ اور ترکی کے تعلقات پر ہے۔ اگر ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے ہیں یا اگر ترکی امریکیوں کو یقین دلائے کہ اس کے اقتدار میں آنے سے امریکی مفادات کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا تو ترکی اور اسرائیل کے درمیان محاذ آرائی میں بھی کمی آنے کا امکان ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ترکی کتنا خطرہ مول لینے کو تیار ہے؟ کچھ شائع شدہ رپورٹس کے مطابق ترکی شام میں اہم اڈوں تک رسائی کا خواہاں ہیں۔ دوسری طرف، بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی شام میں S-400 سسٹم تعینات کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو صیہونیوں کے لیے مکمل طور پر ناقابل برداشت ہے کیونکہ اس طرح کے اقدام سے اس کی فضائی کارروائی میں آزادی عملی طور پر محدود ہو جاتی ہے۔ شام میں روس کی موجودگی کے دوران بھی اسرائیل نے اس بات کو یقینی بنایا کہ روسی دفاع اسرائیلی طیاروں کو نشانہ نہ بنائے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ترکی ایسا کردار ادا کر سکتا ہے یا وہ اسرائیل کے ساتھ مقابلے کی طرف قدم اٹھائے گا؟ نیو عرب نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ وسطی شام میں پالمیرا کے علاقے میں فوجی اڈے قائم کرنا اسرائیل کی ’سرخ لکیر‘ ہے اور وہ ملک میں ترک افواج کی تعیناتی میں کسی بھی تبدیلی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ پچھلے ہفتے اسرائیل نے شام میں تین فضائی اڈوں پر بمباری کی تھی جن پر ترکی فوجی موجودگی پر غور کر رہا تھا۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا کہ اگر شام کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا جاتا ہے اور فوجی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ترکی حمایت کے لیے تیار ہے۔