واخش دریا سے بلوچستان تک پانی لانے کا خواب یا پانی سے کار چلانا؟

480777457_10162767108410948_4134691653140691628_n.jpg

حال ہی میں پاکستان کے صدر آصف زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ تاجکستان کے واخش دریا سے پانی گلگت دریا کے ذریعے بلوچستان تک منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ دعویٰ سن کر آغا وقار کی “پانی سے گاڑی چلانے” کی کہانی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، جو سائنسی اصولوں کے خلاف تھا۔ اسی طرح یہ نیا دعویٰ بھی زمینی حقائق، جغرافیائی حدود اور سائنسی اصولوں کے برعکس ہے۔واخش دریا وسطی ایشیا کے ملک تاجکستان میں بہتا ہے۔ یہ پامیر پہاڑوں میں واقع اوبی مزار اور سرخوب دریاؤں کے سنگم سے جنم لیتا ہے۔ وہاں سے یہ جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا پنج دریا سے ملتا ہے، اور یہ دونوں مل کر آمو دریا بناتے ہیں، جو بالآخر بحیرہ ارال میں جا گرتا ہے۔

واخش دریا تاجکستان کے اہم ترین دریاؤں میں سے ایک ہے اور ملک میں بجلی کی پیداوار کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اس دریا پر کئی بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں، جن میں نورک ڈیم بھی شامل ہے، جو دنیا کے بلند ترین ڈیموں میں شمار ہوتا ہے۔ واخش دریا میں بھی اب پانی کی کمی کی شکایات پیدا ہو رہی ہیں۔واخش دریا کے برعکس گلگت دریا پاکستان کے شمالی علاقوں میں بہتا ہے اور آخر کار دریائے سندھ میں ضم ہو جاتا ہے۔ ان دونوں دریاؤں کے درمیان افغانستان کا واخان کوریڈور موجود اور دیگر خطے ہیں، جنھیں عبور کرنا جغرافیائی اور سیاسی طور پر تقریباً ناممکن ہے۔ مزید برآں پانی نیچے سے اوپر نہیں بہتا، اور اسے ہزاروں کلومیٹر تک پہنچانے کے لیے بڑے وسائل اور توانائی درکار ہوگی، جو مالی لحاظ سے ممکن نہیں۔

ایسا منصوبہ عملی طور پر لاگو کرنے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر درکار ہوں گے۔ اس کے لیے طویل پائپ لائنیں یا نہریں تعمیر کرنی ہوں گی، جو کہ انتہائی مہنگا عمل ہے۔ مزید برآں، پانی کو بلندی پر چڑھانے کے لیے بڑے ہائیڈرو پمپنگ سسٹم درکار ہوں گے، جو بجلی کے بڑے ذرائع کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان اور تاجکستان کے ساتھ بین الاقوامی معاہدے بھی کرنا ہوں گے، جو کہ موجودہ جغرافیائی صورتحال میں مشکل نظر آتے ہیں۔یہ منصوبہ سائنسی طور پر ناممکن، مالی طور پر غیر حقیقی اور جغرافیائی طور پر ناقابلِ عمل ہے۔

ممکن ہے جب انسان مریخ سے پانی لے آئے تب شاید واخش دریا سے پانی بلوچستان آ جائے۔ بلوچستان کے پانی کے مسائل کا حل ایسے خیالی خوابوں میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ہے، جیسے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا، مزید ڈیمز بنانا، اور سمندری پانی کو میٹھا بنانے کی جدید ٹیکنالوجی اپنانا۔ اگر بلوچستان کے پانی کے بحران کو واقعی حل کرنا ہے تو پانی سے کار چلانے کے بجائے اور ایسی ناقابلِ عمل سکیموں کی بجائے سائنسی اور حقیقی حل تلاش کرنے ہوں گے۔ بہت پہلے ایک ہائیڈرولوجسٹ سے سنا تھا جس نے ورلڈ بینک کی کنسلٹنسی کے دوران رپورٹ کیا تھا کہ بلوچستان میں زیر زمین اتنا پانی ہے کہ اگر اُسے بروئے کار لایا جائے تو پورے بلوچستان کو سبز و شاداب سرزمین بنایا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے