امریکا سے ڈی پورٹ پاکستانیوں سمیت دیگر تارکین وطن پاناما میں ڈیرین جنگل کے علاقے منتقل

امریکا سے ڈی پورٹ کیے گئے پاکستانیوں سمیت تقریباً 100 تارکین وطن کے ایک گروپ کو وسطی امریکی ملک پاناما کے ہوٹل سے ڈیرین جنگل کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔رپورٹس کے مطابق ایک بیان میں پاناما کی وزارت سیکیورٹی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں امریکا سے بے دخل کیے گئے 299 تارکین وطن میں سے 13 کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا گیا، جبکہ دیگر 175 دارالحکومت پاناما سٹی کے ہوٹل میں مقیم ہیں، جو وطن واپسی پر رضامندی کے بعد آگے سفر کے منتظر ہیں۔حکومت پاناما کے مطابق تارکین وطن مقامی حکام کی حفاظت اور اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت اور اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے ذریعے امریکی مالی مدد سے ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔
پاناما کے صدر ہوزے راول ملینو نے بتایا کہ تارکین وطن میں پاکستان، افغانستان، چین، بھارت، ایران، نیپال، سری لنکا، ترکیہ، ازبکستان اور ویتنام کے شہری شامل ہیں۔وسطی امریکی ملک پانامہ میں ملک بدری ٹرمپ انتظامیہ کی اس کوشش کا حصہ ہے کہ غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم تارکین وطن کو واپس ان کے ملک ڈی پورٹ کیا جائے۔ٹرمپ منصوبے کا ایک چیلنج یہ درپیش ہے کہ کچھ تارکین وطن ایسے ممالک سے آتے ہیں جو کشیدہ سفارتی تعلقات یا دیگر وجوہات کی وجہ سے امریکا کی جانب سے ملک بدر کیے گئے مسافروں کی فلائٹس آنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں۔امریکا معاہدے کے تحت ان ممالک کے غیرقانونی طور پر مقیم شہریوں کو پاناما ڈی پورٹ کرے گا اور اس پر ان کی وطن واپسی کا انتظام کرنے کی ذمہ داری ہوگی۔
انسانی حقوق گروپس کی جانب سے اس عمل پر تنقید کی گئی ہے، انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ تارکین وطن کے ساتھ بدسلوکی کی جا سکتی ہے اور اگر انہیں بالآخر افغانستان جیسے پرتشدد یا جنگ زدہ ممالک میں واپس کر دیا جاتا ہے تو ان کی حفاظت کا بھی خدشہ ہے۔ڈیرین کے علاقے میں سان ویسینٹ شیلٹر میں منتقل کیے گئے خاندانوں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والی پاناما کی وکیل سوزانا سبالزا نے بتایا کہ وہ پاناما سٹی کے ہوٹل میں اپنے کلائنٹس کے ساتھ نہیں مل سکیں اور وہ ان سے ان کے نئے مقام پر ملنے کی اجازت مانگ رہی ہیں۔انہوں نے تارکین وطن کی قومیت بتانے انکار کرتےہوئے کہا کہ وہ ایک مسلمان خاندان ہیں جن کا گھر واپس جانے پر ’سر قلم کیا جا سکتا ہے‘۔سوزانا سبالزا کا کہنا تھا کہ خاندان اپنے ملک کے علاوہ پاناما یا کسی بھی ملک میں پناہ کی درخواست دائر کریں گے۔
وزارت سیکیورٹی کے بیان کے مطابق 97 تارکین وطن کو دارین کے علاقے میں پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا، جو وسطی امریکا کو جنوبی امریکا سے علیحدہ کرنے والا گھنا اور لاقانونیت والا جنگل ہے۔مزید کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں لاکھوں تارکین وطن کے لیے ایک راہداری بن گیا ہے، جو امریکا پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں، بیان میں مزید کہا گیا کہ 8 مزید تارکین وطن کو جلد ہی وہاں منتقل کیا جائے گا۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اس سے قبل گزشتہ روز علی الصبح پاناما سٹی کے ہوٹل میں تارکین کو خاموش دیکھا گیا تھا۔تاہم، گزشتہ شم متعدد تارکین وطن نے کھڑکیوں سے ہاتھ ہلا کر باہر موجود صحافیوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔مقامی میڈیا کے مطابق تارکین وطن کو ہوٹل سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے