افغان طالبان میں شدید اختلافات حقائق کیا ہیں ؟

افغانستان میں طالبان کو دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے تین سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ پورے ملک پر ان کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن تحریک کے اندر کا حال کچھ زیادہ اچھا محسوس نہیں ہو رہا؟ آخر ماجرا ہے کیا؟طالبان برسوں سے بیرونی دنیا کے سامنے ایک متحدہ محاذ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی صفوں میں اختلاف رائے کم ہی سامنے آیا ہے۔لیکن حالیہ دنوں میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ افغان طالبان تحریک کے اندر ’سب اچھا نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی قیادت میں اختلافات کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان میں قیادت کے مسئلے پر ہونے والے اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور ایک دھڑے نے سابق طالبان گورنر ملا محمد رسول کو اپنا قائد بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ملا اختر منصور کی قیادت سے ناراض افغان طالبان کا اجلاس افغانستان کے مغربی علاقے میں منعقد ہوا جس میں ملا محمد رسول کو اپنا امیر مقرر کیا گیا۔ اجلاس میں ملا محمد رسول کے نائب کے طور پر عبدالمنان نیازی، ملا باز محمد، منصور داد اللہ اور شیر محمد اخوندازادہ کے ناموں کی بھی منظوری دی گئی تاہم افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے صرف یہ کہا ہے کہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ملا محمد رسول کے ایک نائب عبدالمنان نیازی نے دعویٰ کیا کہ مغربی اور جنوبی افغانستان کے متعدد طاقتور کمانڈر ان کے ساتھ ہیں۔ واضح رہے کہ ملا رسول افغانستان پر طالبان کے دور حکومت میں صوبہ نمروز کے گورنر رہ چکے ہیں۔ جولائی میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی ہلاکت کے اعلان کے بعد سے طالبان میں قیادت کا معاملہ اختلافات کا شکار رہا ہے
تاہم مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سپیسز میں تسلیم کیا کہ اگرچہ تحریک کی قیادت میں نظریاتی اختلافات موجود ہیں لیکن یہ جھگڑے کسی سنگین اختلاف کی علامت نہیں۔انہوں نے کہا ان کے درمیان نظریاتی اختلافات معمول کی بات ہیں۔ اسلامی امارت کا ہر رکن کسی بھی مسئلے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور بعض اوقات یہ معاملات میڈیا تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم، ان کے درمیان کوئی جھگڑے نہیں ہے۔اسلام آباد میں سفارتی حلقے بھی اس تردید سے متفق نہیں اور اب تک کے سنگین اختلافات کی خبر دیتے ہیں۔ بصیر میڈیا نے اس مسئلہ پر طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔
اختلاف کی نوعیت کیا ہے ؟
چند اہم طالبان رہنما کافی عرصے سے ایسے بیانات دیتے رہے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی نے دو سال پہلے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی رائے اور فکر کو عوام پر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ سارے نظام کو چیلنج کرنا، ہدف اور یرغمال بنانا درست نہیں ہے۔اسی طرح طالبان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی نے بھی تعلیمی اداروں کی بہتری کے حوالے سے قیادت پر تنقید کی تھی۔ کابل یونیورسٹی میں ایک اجلاس میں انہوں نے کہا کہ مفتی کا فرض صرف یہ نہیں کہ بتائے کہ ’حرام‘ کیا ہے بلکہ جب وہ کسی چیز سے منع کرتا ہے تو اسے اس کا متبادل بھی فراہم کرنا چاہیے۔
پھر نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی سب سے زیادہ خبروں کی زینت بنے جب انہوں نے خواتین کی تعلیم پر پابندی کی مخالفت کی۔ پھر ان کی ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی جس میں شیر محمد عباس ستانکزئی کہہ رہے ہیں کہ رہنما کی پیروی کریں لیکن اس حد تک نہیں کہ خدانخواستہ آپ انہیں نبوت کا درجہ دے دیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان بیانات کی وجہ سے انہیں جنوری میں ملک چھوڑنا پڑا تاہم طالبان کے مطابق وہ اپنی مرضی سے گئے ہیں اور جلد واپس لوٹیں گے۔متحدہ عرب امارات میں اپنی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے عباس سٹانکزئی نے کہا کہ وہ علاج کی غرض سے وہاں گئے ہیں۔
اس سے قبل دسمبر میں طالبان کے وزیر برائے پناہ گزینہ خلیل حقانی ایک خودکش حملے میں جان کھو بیٹھے جو طالبان سخت گیر اسلامی گروپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مارے جانے والے سب سے سینیئر عہدیدار ہیں۔ حقانی گروپ کے کئی لوگ اس موت کا الزام مخالف طالبان پر لگاتے ہیں۔ادھر سراج حقانی 23 جنوری کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر جانے کے بعد سے واپس کابل نہیں لوٹے ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ علاج اور آرام کے لیے ابھی تک افغانستان سے باہر ہیں۔ ان ذرائع نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے لیکن صرف اتنا کہا کہ آس پاس ہیں۔ان کی غیرموجودگی میں وزارت داخلہ کے اہم امور ان کے نائبین سرانجام دے رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سراج الدین حقانی کو 23 جنوری سے 3 فروری تک عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے کے لیے سفری استثنیٰ دے دیا تھا، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کیا اس سفری استثنیٰ میں مزید توسیع دی گئی ہے یا نہیں۔
اسلام آباد میں سفارتی ذرائع نے بتایا کہ سراج الدین حقانی کے لوگ بھی کابل سے نکل چکے ہیں جبکہ ہیبت اللہ اپنے مزید جنگجو لا رہے ہیں۔ان کے علاوہ نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر بھی کئی ہفتوں سے ملک سے باہر ہیں۔ان اطلاعات میں طالبان امیر ہبت اللہ اخوند قندھار میں موجود ہیں اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ دن بھی وہ مختلف صوبائی گورنروں سے ملے ہیں۔موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ بعض طالبان رہنما ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور سرمایہ کاری لانا چاہتے ہیں جبکہ سخت گیر رہنما عالمی تنہائی کے باوجود سخت اسلامی حکمرانی کے نفاذ کو ترجیح دیتے ہیں۔طالبان حکومت کو اس وقت شدید معاشی مسائل درپیش ہیں۔ عام افغان مسائل کا حل مانگتا ہے ایسے میں یہ اندرونی اختلافات مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔اگر طالبان ان مشکلات کو حل نہ کر سکے تو مبصرین مانتے ہیں کہ افغانستان ایک اور مشکل دور میں داخل ہو سکتا ہے۔