ٹرمپ غزہ منصوبہ، سعودی عرب میں سربراہی اجلاس

71573372_1004.jpg

سعودی ذرائع کے مطابق ریاض حکومت 20 فروری کو چار عرب ممالک کے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ پر امریکی قبضے کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ریاض سے موصولہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ پر امریکی قبضے کی تجویز کے تناظر میں ریاض حکومت 20 فروری کو چار عرب ممالک کے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہی ہے۔ یہ بات اجلاس کی تیاری کے بارے میں معلومات رکھنے والے ایک سعودی ذریعے نے بتائی ہے اور اُس نے یہ بھی کہا کہ مصر، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے رہنما اس سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ یہ اجلاس اسی مسئلے پر27 فروری کو قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس سے قبل منعقد ہوگا۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور سعودی ذریعے نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی سعودی عرب میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ٹرمپ کا غزہ کی بابت متنازعہ منصوبہ

ٹرمپ نے اپنے غزہ منصوبے میں غزہ پٹی پر قبضہ کرنے اور اس علاقے کے فلسطینی باشندوں کو مصر یا اردن منتقل کرنے کی بات کی ہے۔ ٹرمپ کے غزہ پٹی پر قبضے اور وہاں کے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو علاقے سے باہر منتقل کرنے کی تجویز عالمی سطح پر تشویش اور ناراضگی کے اظہار کا سبب بنی ہے۔ٹرمپ کی تجویز پیش کی جانے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سعودی عرب فلسطینیوں کو اپنے ہاں بھی بسا سکتا ہے۔ اس پر عرب دنیا کی طرف سے مذمت کی گئی، لیکن اسے کچھ اسرائیلی میڈیا نے مذاق قرار دیا۔فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر بے گھر کرنے کا خیال پیش کیے جانے کے بعد سے ناراض عرب ممالک ایک متحدہ محاذ قائم کر رہے ہیں۔

عرب ممالک ایک پیج پر کیسے؟

فلسطینیوں کے لیے، کوئی بھی جبری نقل مکانی ”نقبہ‘‘ یا اُس بڑی تباہی کی یادیں تازہ کرتی ہے، جو 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے وجود میں آنے کے دوران آئی تھی۔ تب فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ دریں اثناء امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر اردن اور مصر نے ان کے منصوبے کا ساتھ نہ دیا تو وہ دیرینہ اتحادیوں اردن اور مصر کے لیے ایک اہم امدادی لائف لائن منقطع کر دیں گے۔اردن پہلے ہی 20 لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کا مسکن ہے۔ ملک کی 11 ملین آبادی میں سے نصف سے زیادہ فلسطینی نژاد ہیں۔ اُدھر مصر نے ایک فریم ورک کے تحت غزہ کی تعمیر نو کے لیے اپنی تجویز پیش کی ہے جس سے فلسطینیوں کو علاقے میں رہنے کی اجازت ملے گی۔

مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسے غزہ سے فلسطینی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں رہا کیے جانے والے مزید تین مغویوں کے نام موصول ہو گئے ہیں۔اسرائیلی دفتر نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ جلد رہا ہونے والے یرغمالیوں میں اسرائیلی روسی شہری ساشا تروفانوف، اسرائیلی امریکی باشندے ساگوئی ڈیکل چن اور اسرائیلی ارجنٹینین شہری لائر ہورن شامل ہیں۔مذکورہ یرغمالیوں کی رہائی کی خبر کی تصدیق فلسطینی ذرائع سے بھی ہوئی ہے۔ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروپوں نے کہا کہ وہ ان تینوں یرغمالیوں کو ہفتے کے روز جنگ بندی کی شرائط کے مطابق رہا کردیں گے۔

یرغمالیوں کی رہائی کا اعلان ایک نازک وقت میں

غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے مزید تین یرغمالیوں کی رہائی کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب مصری اور قطری ثالثوں کی غزہ جنگی بندی کے لیے امریکی حمایت یافتہ معاہدے کو ٹریک پر رکھنے کی کوششوں کے باوجود ایسے شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے تھے کہ آیا گزشتہ ماہ طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ برقرار رہ پائے گا؟دریں اثناء اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے اس فہرست کو قبول کر لیا ہے۔ قبل ازیں حماس نے اس سے قبل مزید یرغمالیوں کو رہا نہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ٹرمپ کا غزہ منصوبہ، ترکی کی مذمت

رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ”غلط حساب کتاب‘‘ کر رہی ہے۔ ترکی نے ٹرمپ کے دو ملین سے زائد فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنے کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس منصوبے کے تحت مشرق وسطی کو ” ایک ساحلی تفریحی مقام‘‘ میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ملائیشیا، انڈونیشیا اور پاکستان کے دورے سے واپسی کی پرواز پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا،”امریکہ ہمارے خطے کے بارے میں غلط اندازے لگا رہا ہے۔ اس قسم کا نقطہ نظر نہیں رکھا جانا چاہیے جو کسی خطے کی تاریخ اور اقدار کو نظر انداز کرے۔‘‘رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ توقع تھی کہ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کے مطابق امن کے لیے اقدامات کریں گے نہ کہ نئے تنازعات کھڑا کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے