مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کے کاروباری مفادات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پٹی کو جائیداد کے کاروبار کے حوالے سے اہم قرار دیتے ہوئے وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی بات کی۔ تاہم یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خاندان کئی سالوں سے مشرق وسطیٰ کو اپنی کاروباری امنگوں کی تکمیل کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ چار فروری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق بیانات نے کچھ پرانی یادوں کو تازہ کر دیا۔ نہ صرف ٹرمپ بلکہ ان کے داماد جیرڈ کُشنر ماضی میں بھی ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے اس خطے کو محض ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کے حوالے سے اہم سمجھتے ہیں۔ غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کا متنازعہ بیان دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا، ”ہمارے پاس ایک شاندار موقع ہے۔ میں اسے مذاق نہیں بنانا چاہتا، نہ ہی کسی چالاکی سے کام لینا چاہتا ہوں۔ لیکن ‘مشرق وسطیٰ کا یہ خطہ‘ انتہائی شاندار ہو سکتا ہے۔
یہ خیالات جیرڈ کُشنر کے فروری سن 2024 ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں دیے گئے ایک انٹرویو کی بازگشت محسوس ہوتے ہیں، تب انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کا ساحلی علاقہ بہت اہم ہو سکتا ہے اگر وہاں روزگار کے مواقع بڑھانے پر توجہ دی جائے تو۔کُشنر نے مزید کہا تھا کہ اگر وہ اسرائیل کے نقطہ نظر سے سوچیں تو وہ غزہ کے لوگوں کو ”منتقل کر کے پھر اس علاقے میں امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ٹرمپ نے اس موقف پر زور دیتے ہوئے دس فروری کو فوکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ انہیں کہیں اور بہتر رہائش فراہم کی جائے گی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے خاندان کے لیے مشرق وسطیٰ محض ایک کاروباری دلچسپی کا معاملہ ہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کے کاروباری مفادات کیا ہیں؟
مشرق وسطیٰ کا خطہ ‘دی ٹرمپ آرگنائزیشن‘ کے لیے ایک اہم مقام بنتا جا رہا ہے۔ ریئل اسٹیٹ اور ہوٹلنگ کے اس بڑے ادارے کو چلانے والے امریکی صدر ٹرمپ کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر ہیں۔حالیہ برسوں میں ‘دی ٹرمپ آرگنائزیشن‘ نے سعودی عرب کی ریئل اسٹیٹ کمپنی دار گلوبال کے ساتھ کئی معاہدے کیے ہیں، جو دراصل سعودی عرب کی دار الارکان ریئل اسٹیٹ ڈویلمپنٹ کمپنی کی ہی ملکیت ہے۔عمان میں ایک ٹرمپ برانڈڈ لگژری ہوٹل اور ایک گولف ریزورٹ کی تعمیر جاری ہے جبکہ جدہ اور دبئی میں ٹرمپ ٹاورز کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔اس سے قبل سن 2005 میں دبئی میں ایک ٹرمپ ٹاور تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، جو ہوٹل اور اپارٹمنٹس پر مشتمل ہونا تھا لیکن عالمی مالیاتی بحران کے
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات
امریکہ کے اہم اتحادی ملک سعودی عرب کے ساتھ ٹرمپ خاندان کے کاروباری مفادات دن بہ دن زیادہ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ دار گلوبال کے علاوہ ٹرمپ آرگنائزیشن نے ایل آئی وی گولف کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کیے ہیں، جو کہ سعودی عرب کا ایک متنازعہ اسپورٹس انویسٹمنٹ پراجیکٹ ہے۔دوسری طرف جیرڈ کُشنر کی نجی ایکویٹی فرم ‘افینیٹی پارٹنرز‘، جو ٹرمپ آرگنائزیشن سے الگ ہے، سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے ساتھ قریبی روابط رکھتی ہے۔پی آئی ایف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ اس فنڈ نے افینیٹی پارٹنرز میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔اس کے علاوہ گلف ممالک کے متعدد اہم سرمایہ کاروں نے بھی جیرڈ کُشنر کے پراجیکٹ میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہے، ان میں قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی اور ابوظہبی کی لونیت نامی فرم بھی نمایاں ہیں۔کُشنر نے اسرائیل میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان میں شالمو انشورنس کمپنی اور فینکس ہولڈنگز سرفہرست ہیں۔
کیا یہ مفادات تنازعے کا باعث بن سکتے ہیں؟
صدر ٹرمپ اور ان کے خاندان کے ان وسیع کاروباری مفادات کی وجہ سے ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے معاملات میں غیر جانبداری سے فیصلہ نہیں لے سکتے۔اگرچہ سن 2016 میں صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے اپنے کاروبار کے انتظامی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن ان کے خاندان کے افراد اب بھی ان کی سیاسی مہمات میں فعال ہیں۔جیرڈ کُشنر پر خاص طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے مشاورتی کردار کو مشرق وسطیٰ میں اپنی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ تاہم وہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
کیا ٹرمپ غزہ کو ایک ریئل اسٹیٹ منصوبہ سمجھتے ہیں؟
ٹرمپ اور جیرڈ کُشنر دونوں ہی غزہ پٹی کو ایک ممکنہ ریئل اسٹیٹ ڈیل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ علاقہ دو ملین فلسطینیوں کا گھر ہے۔ٹرمپ کے بقول، ’’دنیا بھر کے لوگ یہاں رہیں گے، جو اس جگہ کو ایک بین الاقوامی اور ناقابل یقین مقام میں تبدیل کر دیں گے۔ غزہ پٹی میں امکانات بے حد زیادہ ہیں۔ٹرمپ کے اس منصوبے پر فلسطینی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے جبکہ کئی ممالک کی حکومتوں نے بھی ٹرمپ کے اس منصوبے کی شدید مذمت کی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منصوبہ کئی حوالوں سے غیر حقیقی اور ناقابل عمل ہے۔تاہم مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ آرگنائزیشن کے بڑھتے ہوئے ریئل اسٹیٹ منصوبوں اور خود ٹرمپ اور کُشنر کے واضح بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم ان کے لیے یہ منصوبہ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔