کرک میں امن جرگہ کا انعقاد

وسیم-1.jpg

خیبر پختونخوا میں جرگہ پشتون سماج کا ایک قدیم اور موثر روایتی ادارہ ہے، جو اجتماعی فیصلے، تنازعات کے حل اور امن کے قیام میں مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ حالیہ برسوں میں صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد عوام نے اس روایت کو پھر سے زندہ کیا ہے، اور مختلف مواقع پر امن جرگوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اب ضلع کرک میں منعقد ہونے والے گرینڈ امن جرگہ نے اس روایت کو ایک نئی قوت دی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب خیبر پختونخوا کے عوام نے امن کے قیام کے لیے اجتماعی اقدامات کیے ہوں۔ 2009 میں سوات امن جرگہ طالبان کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم بنا، جبکہ 2010 سے 2015 کے درمیان باجوڑ اور دیر میں منعقدہ جرگوں نے دہشتگردوں کے خلاف عوامی بیانیہ تشکیل دیا اور فوجی آپریشنز میں معاونت فراہم کی۔ 2022 میں لکی مروت میں ہونے والے امن جرگے نے بھی دہشتگردوں کے خلاف واضح موقف اختیار کیا اور عوامی مزاحمت کا حصہ بنا۔ 2024 میں کرک میں ہی منعقد ہونے والے پشتون امن جرگے کے بعد بھی حالات میں بہتری نہ آنے پر عوام نے ایک اور بڑا جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔

پشتون سماج میں جرگہ ہمیشہ سے اجتماعی فیصلہ سازی کا ایک مضبوط ادارہ رہا ہے، جو نہ صرف تنازعات کے پرامن حل کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ عوامی یکجہتی کی علامت بھی ہے۔ موجودہ دور میں جب ریاستی ادارے دہشتگردی جیسے چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہیں، جرگے عوامی حمایت اور مزاحمت کا ایک موثر اظہار بن چکے ہیں۔ تاہم، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ جرگے کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاستی مشینری کی فعال شراکت داری بھی ضروری ہے۔

کرک، جو اپنی ثقافتی وراثت اور امن و سکون کے لیے جانا جاتا تھا، گزشتہ ڈھائی سالوں سے دہشتگردی کا شکار ہے۔ باجوڑ، سوات، دیر اور لکی مروت کے بعد اب کرک میں بھی بدامنی کے سائے گہرے ہو چکے ہیں۔ بہادر خیل جیسے واقعات نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ مزید خاموش رہنا ممکن نہیں۔ اس صورتحال میں مقامی عوام، سیاسی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحت نصرتی اسپورٹس گراؤنڈ میں ایک بڑے جرگے کا انعقاد کیا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

جرگے کے شرکاء نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ دہشتگرد اور مسلح گروہ تین دن کے اندر علاقہ چھوڑ دیں، بصورت دیگر عوام خود اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کے خلاف قومی لشکر کشی کریں گے۔ یہ دوٹوک موقف نہ صرف عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ریاستی اداروں کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ مقامی آبادی مزید خاموش تماشائی نہیں بنی رہے گی۔اس جرگے میں صوبائی وزیر زراعت سجاد بارکوال، ایم این اے شاہد خٹک ، سابق صوبائی وزیر اور جے یو آئی کے رہنما ملک قاسم خان،، پی ٹی آئی کے رہنما فرقان شاہ اور خٹک اتحاد سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ مقررین نے نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد اور دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان افراد کے سماجی بائیکاٹ پر بھی زور دیا گیا جو دہشتگردوں کی حمایت کرتے ہیں یا ان کے لیے سہولت کاری فراہم کرتے ہیں۔

جرگے کے شرکاء نےتخت نصرتی کرک میں ایک بڑے امن مارچ کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، جو دس فروری کو منعقد ہوگا اس کے ساتھ ساتھ ایک امن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو اس تحریک کو مزید منظم کرے گی اور دہشتگردی کے خلاف عوامی آواز کو مزید بلند کرے گی۔خیبر پختونخوا کے عوام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف نہ صرف آواز بلند کر سکتے ہیں بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھا سکتے ہیں۔ کرک کا گرینڈ امن جرگہ اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے، جس میں روایتی جرگہ نظام کو جدید دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بروئے کار لایا گیا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ریاستی ادارے اور سیاسی قیادت عوامی جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر دہشتگردی کے خاتمے کی راہ ہموار کر پائیں گے یا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے