امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے اہم اتحادی کے درمیان تنازعے کا خدشہ

7ed3d79e-027c-4557-afaf-5a257a4a3d87.jpg

جب اردن کے بادشاہ عبداللہ آج وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے تو صرف غزہ ہی نہیں بلکہ اردن کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔ٹرمپ کا یہ عزم کہ غزہ کی آبادی کو اردن منتقل کیا جائے، اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ایک اہم اتحادی کے درمیان تنازعے کا خدشہ ہے۔شاہ عبداللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ اردن اس منصوبے پر کبھی اتفاق نہیں کرے گا۔ جس کے بعد ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ امداد روکنے پر غور کر سکتے ہیں۔اردن ہر سال امریکہ سے کم از کم 1.45 ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد وصول کرتا ہے۔

اسرائیل اور مصر کے ساتھ ساتھ، اردن مشرق وسطیٰ میں امریکہ سے سب سے زیادہ امداد حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہے، لیکن چونکہ اردن کی معیشت نسبتاً چھوٹی ہے اس لیے اس امداد کا ملک کی معیشت میں بہت بڑا کردار ہے جو جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد بنتی ہے۔ٹرمپ نے پہلے ہی امریکی عالمی فنڈنگ کے جائزے کے حصے کے طور پر اردن کو امداد معطل کر دی ہے۔ امریکی امداد کے نقصان کے نتائج اردن جیسے ملک میں شدید ہو سکتے ہیں جہاں آبادی کا چوتھائی حصہ غربت میں زندگی گزار رہا ہے اور تقریباً نصف نوجوان بے روزگار ہیں۔

لیکن اہم سیاسی شخصیات کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دباؤ کے سامنے جھکنے کے نتائج اور بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔ اردن میں لاکھوں پناہ گزین ہیں جن میں سے بہت سے فلسطینیوں سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں اور اگرچہ بہت سے مقامی اردنی فلسطینی عوام کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے ہیں لیکن اردن میں پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور روزگار کی کمی کے باعث مایوسی بھی بڑھ رہی ہے۔اردن کی حکومت کے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون نے کبھی کبھار اسے مشکلات میں بھی ڈالا ہے۔بادشاہ عبداللہ کے سامنے ایک مشکل انتخاب ہے: ایک غیر متوقع عالمی طاقت اور اپنے اتحادی کی شرائط کو مسترد کریں یا اپنے ملک میں ایسی صورتحال کو قبول کریں جو ایک سنگین بحران کا سبب بن سکتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے