چین کی برآمدات اُس کے لیے مسائل بھی پیدا کریں گی!

امریکی اور یورپی یونین کے حکام، اور پال کروگمین جیسے معیشت دانوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے چین پر یہ تنقید کافی عرصے سے کی جا رہی ہے جو اب شدید ہوتی جا رہی ہے کہ “چین عالمی معیشت سے جتنا فائدہ اٹھاتا ہے اس تناسب کے لحاظ سے وہ دوسروں کی ترقی میں اُتنا حصہ نہیں ڈالتا ہے۔” یہ تجارتی عدم توازن (trade imbalance)، چین کی ریاستی سبسڈیز، اور مارکیٹ تک رسائی کے مسائل جیسے معاملات پر روشنی ڈالتا ہے، خاص طور پر کنزیومر گُڈز (consumer goods) کی تجارت میں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چین گلوبل ڈیمانڈ اور گلوبل گروتھ میں اضافہ کر را ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی حکمت عملیاں غیر مساوی مقابلے کی صورتحال پیدا کرتی ہیں۔ اس مسئلے پر خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کے دوران چین۔امریکہ تجارتی جنگ کے دوران اس عدم توازن پر زیادہ توجہ بھی دی جا رہی ہے اور دی جانی چاہیے کیونکہ یہ نہ چین کے حق میں ہے نہ دوسری معیشتوں کے حق میں ہے۔
یہ دلیل خاص طور پر کنزیومر گُڈز کی تجارت کے حوالے سے درست ہے۔ چین کا اقتصادی ماڈل بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ اور برآمدات پر مبنی ہے، جو بین الاقوامی مارکیٹوں کو مقابلے کی قیمتوں والے سامان کی بھرمار کر دیتا ہے جبکہ اپنی مارکیٹ کو غیر ملکی کنزیومر گُڈز کے لیے نسبتا بند رکھتا ہے۔2024 میں چین کا کل تجارتی حجم(trade volume) 5.98 ٹریلین ڈالر تک پہنچا گیا تھا۔ اس نے 853.8 بلین ڈالر مالیت کے خام مال (کل درآمدات کا 31.44%) اور 365.7 بلین ڈالر مالیت کے کبزیومر گُڈز (13.47%) درآمد کیں۔کنزیومر گُڈز کی برآمدات تقریباً 1.26 ٹریلین ڈالر تھیں، جبکہ کل برآمدات کا حجم 3.58 ٹریلین ڈالر تھیں۔ کل درآمدات تقریباً 2.59 ٹریلین ڈالر تک پہنچیں۔ لہٰذا 2024 میں چین کا تجارتی عدم توازن (trade imbalance) تقریباً 1 ٹریلین ڈالر تھا، یعنی برآمدات کی نسبت درآمدات ایک ٹریلین ڈالر کم تھیں۔
یہ عدم توازن چین کی سٹریٹیجک صنعتی پالیسی کی وجہ سے ہے، جو ملکی صنعتوں کو بھاری سبسڈیز فراہم کرتی ہے، جس سے وہ عالمی سپلائی چینز کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، زیادہ ٹیرف، ریگولیٹری رکاوٹیں، اور قومی پالیسیوں سے متاثرہ کنزیومرز کی ترجیحات چین میں غیر ملکی کنزیومر گُڈز کی درآمدات کو محدود کرتی ہیں۔اس سے ہو یہ رہا کہ جب کہ دنیا بھر کے ممالک چینی مصنوعات کو کنزیوم کرتے ہیں، ان کی اپنی کنزیومر گُڈز کی انڈسٹری چین کی کم قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر پاتی ہیں اور مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں بالکل ہی تباہ ہو جاتی ہیں۔چین کی اس پالیسی سے دوسرے ممالک کی معیشتوں کی مینوفیکچرنگ بیس ہی تباہ نہیں ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے، اس ماڈل کا ایک زیادہ خطرناک طویل المدتی نتیجہ یہ بنتا ہے کہ چین ان ممالک میں کنزیومرز کی تعداد کو بھی کم کرتا ہے۔ جیسے جیسے مقامی صنعتیں منہدم ہوتی ہیں، بیروزگاری بڑھتی ہے، جو لوگوں کی قوتِ خریداری کو کم کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ، یہ وہ کنزیومرز کی مارکیٹس بھی سکڑتی ہیں جن پر چین اپنی برآمدات کے لیے انحصار کرتا ہے۔ یہ انحصار اور تباہی کا یہ چکر بدلے میں چین سے ناراضگی پیدا کرتا ہے، جس سے چین اقتصادی اور سیاسی ردعمل کا نشانہ بنتا ہے۔
اگر چین اس راستے پر چلتا رہتا ہے تو وہ ان ممالک سے مزید نفرت کمائے گا جن کی انڈسٹریز اس کی سستی کنزیومر گُڈز نے کمزور کیا ہے۔ مزید ممالک ممکنہ طور پر پروٹیکشنزم (protectionism) کے اقدامات، تجارتی پابندیوں اور مقامی پیداوار کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوششوں کے ساتھ مزاحمت کریں گے۔طویل مدت میں چین نہ صرف عالمی خیر سگالی کھو سکتا ہے بلکہ اپنی گُڈز کی مارکیٹ تک رسائی بھی کھو سکتا ہے کیونکہ دیگر ممالک اقتصادی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ چین کا موجودہ ماڈل اگرچہ قلیل مدت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے، لیکن آخرکار چین کو انہی معیشتوں سے الگ کر سکتا ہے جن پر وہ پائیدار ترقی کے لیے انحصار کرتا ہے۔ترقی صرف ایک ملک کی معیشت یا افراد کی حالت میں بہتری کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک جامع عمل ہے جس میں سب کے لیے فائدہ ہونا چاہیے۔ اگر یہ ترقی صرف چند افراد یا ممالک تک محدود رہ جائے اور اس کے اثرات پسماندہ یا کمزور طبقوں تک نہ پہنچیں، تو یہ پائیدار نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر وسائل اور مواقع چند لوگوں تک ہی محدود رہیں گے، تو یہ معاشرتی ہم آہنگی اور طویل مدتی کامیابی کو نقصان پہنچائے گا۔