کوئی ملک مدد کو نہیں آئے گا، پاکستان کو خود موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہے

شیریں-رحمان.jpg

مستقبل کبھی بھی بالکل ایسا نہیں ہوتا جیسی ہم توقع کرتے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں نے ہماری زندگیوں کو مزید غیر متوقع، غیر مستحکم اور مشکل بنادیا ہے۔اس کے باوجود پاکستان میں جو ایک چیز یقینی ہے وہ درجہ حرارت انتہائی درجوں کو چھونے کی حقیقت ہے۔ یہ ایسا امر نہیں جسے ہم مسترد یا نظرانداز کریں۔ نہ اس مسئلے کو ایسی پالیسی سے حل کیا جاسکتا ہے جوکہ محض کاغذات تک محدود ہوتی ہیں۔ اگر ڈان جیسا کامیاب میڈیا ہاؤس بھی صاف ہوا میں سانس لینے کی صلاحیت کو محفوظ بنانے پر اپنے کاوشیں مرکوز کررہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام اور پالیسی ساز دونوں اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ یہ وجودی مسئلہ کتنا سنگین ہے۔چونکہ پاکستان کے موسمیاتی رجحانات عالمی رجحانات سے منسلک ہیں، یہی وجہ ہے کہ کم کاربن خارج ہونے کے باوجود ہمارے قدرتی اور موسمیاتی سرمایے کو بہت کم وقت میں شدید نقصان پہنچا ہے۔ 2022ء کے غیر معمولی مون سون سیزن نے پاکستان کو موسمیاتی تباہی کے مرکز میں تبدیل کردیا جس کا واضح تعلق گلوبل وارمنگ اور بڑھتے ہوئے اخراج سے ہے۔

2022ء کی خوفناک آفت کے بعد سے ہم نے سوشل میڈیا کی ریلز کے ذریعے دنیا بھر میں موسمیاتی تباہی کے ہولناک مناظر دیکھے ہیں۔ جو 2022ء میں پاکستان میں ہوا، اس کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا۔ بالکل اسی طرح گزشتہ مہینے لاس اینجلس میں جو ہوا وہ صرف لاس اینجلس تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ موسمیاتی تبدیلی کی فطرت ہے جو ہر جگہ ہر کسی کو متاثر کرتی ہے۔2047ء سے قبل پاکستان کو صرف حال سے نہیں سیکھنا بلکہ اسے مستقبل کی ممکنہ صورت حال کے حوالے سے بھی کمر کس لینی چاہیے اور تمام منصوبوں کو ماڈل بنانا چاہیے جوکہ موسمیاتی کارروائی کے مطابق ’بزنس ایزیوژول‘ (BAU) ماڈلز پر انحصار کرتے ہیں۔اگرچہ یہ واضح ہے کہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والوں کو موسمیاتی انصاف کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے لیکن پاکستان کو موسمیاتی آفات سے بچنے کے لیے فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے۔ گویا ہمارا گھر اس وقت جل رہا ہے اور ہمیں اس آگ کو بجھانے کے لیے فوری اقدامات لینے ہوں گے۔

بزنس ایز یوژول ماڈل 2047ء

جب ہم مستقبل میں دیکھتے ہیں تو ہمیں خوفناک امکانات کو مدنظر رکھنا چاہیے جیسے خشک زمین، پگھلتے گلیشیئرز، بیابان صحرا اور جلے ہوئے پہاڑ۔ تباہ حال دنیا کے یہ نظارے ہمیں کارروائی اور ان سے بچنے کے لیے درکار سخت فیصلے کرنے پر مجبور کریں گے۔ ان نتائج کا خوف اس بات کو تبدیل کرنے کے لیے ایک طاقتور محرک ہو سکتا ہے۔پاکستان کے لیے ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک تین کلیدی مسائل سے بیک وقت نبرد آزما ہے جن میں موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور آلودگی شامل ہیں۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا ہماری آبادی روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرتی ہے۔ پاکستان تمام محاذوں پر لڑ رہا ہے۔ جب آپ اس طرح کے مشکل حالات میں زندہ رہنے کے لیے درکار لچک پر غور کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم ہر روز بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بزنس ایز یوژول ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس میں پاکستان موجودہ پالیسیز کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرےگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پالیسیز میں تبدیلی نہ کرکے پاکستان مکمل طور پر تیار نہیں ہوگا جبکہ موسم اور آبی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل کی کمی ہوگی جو موسمیاتی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ پالیسی ساز اس بات سے آگاہ ہیں کہ پاکستان موسمیاتی بحران کے حوالے سے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ علم، ہنر، ہم آہنگی اور بین الاقوامی وسائل تک رسائی نہ ہونا، اس بحران سے نمٹنے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور گرین ہاؤس گیسز کے بڑھتے ہوئے اخراج کو روکنے میں دنیا کا ردعمل سست ہے جبکہ پیرس معاہدے میں طے کردہ گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کے ہدف کا حصول بھی مشکل نظر آتا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستان کو بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔2047ء تک درجہ حرارت میں 2.5 سے 3 ڈگری اضافے کا امکان ہے، اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو تباہ کن اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں طویل مدتی ہیٹ ویوز اور پانی کی شدید قلت شامل ہوں گی۔ ہمارے گلیشیئرز جو پانی کے ایک بڑے حصے کی فراہمی کا ذریعہ ہیں، غیرمعمولی رفتار سے پگھل رہے ہیں۔ نتیجتاً ملک اپنے آبی وسائل کا 60 فیصد حصہ گنوا سکتا ہے بالخصوص دریائے سندھ پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے جس کا دریائی نظام گلیشیئرز پر انحصار کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف خطے میں پانی کی دستیابی میں کمی آئے گی بلکہ اس سے سمندر کی سطح بھی بلند ہوجائے گی اور پہلے سے ہی کمزور ڈیلٹا والے علاقے صحرا کی صورت اختیار کرلیں گے۔

اس وقت ملکی آبادی میں موجودہ شرح سے اضافہ کے ساتھ، بزنس ایز یوژول منظر نامے کے نتیجے میں پانی کی طلب میں 40 فیصد اضافہ ہوگا۔ یہ ممکنہ طور پر پاکستان کو درپیش بدترین بحرانوں میں سے ایک ہوگا جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عدم استحکام اور زراعت اور مویشیوں کی قلت پیدا ہوگی۔ شہری مراکز کو بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔جیسے جیسے پانی کی قلت بڑھ جاتی ہے، پانی کے وسائل کا اشتراک کرنے والے ممالک کے درمیان مسابقت تنازعات کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ کمی سلسلہ وار ردعمل کا سبب بنے گی جس سے زراعت، مویشیوں کے چرنے کی زمینیں، نقل مکانی، پینے کے پانی کی فراہمی اور توانائی کی پیداوار متاثر ہوگی۔ فصلوں کی پیداوار میں ممکنہ طور پر 50 فیصد تک کمی کی وجہ سے خوراک کی سیکیورٹی ایک اہم مسئلہ بن جائے گا جوکہ پاکستان کو درپیش موسمیاتی خطرے کی وضاحت کرنے والے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔

بالآخر موسمیاتی تبدیلی صرف سیارے تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مایوس کن پالیسیز اپنا کر غربت میں 30 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے جو مزید 2 کروڑ 10 لاکھ لوگوں کو غربت اور محرومی کے دلدل میں دھکیل دے گی۔ چونکہ پاکستان کی تقریباً 40 فیصد آبادی پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، لہٰذا ایک ایسا مستقبل ہمارا منتظر ہوگا جہاں موسمیاتی تبدیلی بڑے پیمانے پر مصائب کو جنم دے گی اور پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں ایک ریڈ زون کی حیثیت اختیار کرلے گا۔غربت کی سطح اور سماجی معاونت کے نظام تک رسائی تعین کرتی ہے کہ کیسے کمیونٹیز آب و ہوا کے اثرات سے نمٹتی ہیں اور خود کو اس سے موافق بناتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی بہت سے لوگوں کو مزید غربت میں دھکیل سکتی ہے، انہیں بقا کی جدوجہد پر مجبور کر سکتی ہے جہاں بنیادی غذائیت کا حصول بھی ایک چیلنج بن جاتا ہے۔

موسمیاتی تناؤ کے اثرات سےخواتین اور چھوٹے بچوں سمیت معاشرے کے کمزور طبقات بالخصوص پانچ سال سے کم عمر بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے پہلے ہی غذائی قلت سے متاثر ہیں وہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اضافی بوجھ کی وجہ سے خاندانوں کی اپنے حالات کو بہتر بنانے کی صلاحیت انتہائی محدود ہو جائے گی۔موسمیاتی مزاحمتی اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ بہت سے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ علاقے جو سیلاب اور خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں، وہاں خواندگی متاثر ہوتی ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے لیے نقل و حمل جیسے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ 2 کروڑ 60 لاکھ بچوں کے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ یہ بچے جن گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ نہ صرف غربت کے دہانے پر ہیں بلکہ ان میں سماجی نقل و حرکت کا فقدان بھی ہے۔ یوں وہ ملک کی مضبوط افراد قوت کا حصہ بننے کا موقع گنواسکتے ہیں۔

امکان ہے کہ 2047ء تک 30 سال سے کم عمر افراد کی آبادی کے 50 سے 60 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، زیادہ تر افراد کام کی خواہش میں شہری علاقوں کی جانب ہجرت کریں گے جبکہ یہ شہری علاقے پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں جہاں انفراسٹرکچر، میونسپل سروسز اور ہاؤسنگ کی صورت حال مسائل سے دوچار ہے۔ایک ایسے منظر نامے میں جہاں شہر میں سالڈ ویسٹ کا مؤثر نظام موجود نہ ہو جس کی وجہ سے ندی نالیاں پلاسٹک سے بھر جاتی ہوں اور نالے بھر کر سڑکوں پر بہتے ہوں، وہاں ملک کے دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے افراد موسمیاتی خطرات سے زیادہ متاثر کرسکتے ہیں جو رش والے اور کم خدمت والے علاقوں بستیوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس سے صحت کا بحران پیدا ہوگا۔چونکہ نوجوان نقل و حمل، قابل اعتماد توانائی، معیاری صحت کی دیکھ بھال، ڈیجیٹل رسائی اور صاف پانی جیسے وسائل کا مطالبہ کرتے ہیں، لہٰذا دباؤ بڑھتا جائے گا۔ ٹیکنالوجی، میڈیا اور انٹرپرینیورشپ جیسے شعبہ جات میں ملازمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ نتیجتاً ایک غیرمستحکم صورت حال پیدا ہوگی جہاں مایوسی اور مواقع کی کمی پاکستان کی نوجوان آبادی کو بنیاد پرستی، جرائم اور تشدد کی جانب مائل کرے گی جس سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوجائےگا۔

وارننگ سسٹم سمیت تباہی کے خطرے سے متعلق تیاری کیے بغیر، دیہی علاقوں میں خواتین کو صحت کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی، انہیں خطرات کا سامنا ہوگا جبکہ وہ خود کو تنہا محسوس کرسکتی ہیں جیسا کہ ماضی میں موسمیاتی تبدیلی کے تنازعات کی وجہ سے نقل مکانی کے دوران دیکھا گیا ہے۔ صرف 2022ء میں 6 لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین کو ہنگامی خدمات تک فوری رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی ملک، بالخصوص پاکستان، غیر متوقع مون سون، سیلاب، یا ہیٹ ویوز کی وجہ سے پیدا ہونے والے اس انتہائی اتار چڑھاؤ سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں جو ہماری زمین کے توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔اگر تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمی، پانی اور خوراک کی قلت کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو بدترین صورت حال کسی چین ری ایکشن کی طرح بحران کو وسعت دے سکتی ہے۔ ہر صوبے اور ضلع کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی کے خطرے میں کمی کے منصوبے تیار نہ کیے تو کوئی بڑا موسمیاتی واقعہ چند دنوں میں ایک دہائی کی ترقی کو ختم کرسکتا ہے۔ موجودہ بزنس ایز یوژول کی شرح پر اور زراعت، توانائی اور پانی کے انتظام میں تبدیلی کی سرمایہ کاری کیے بغیر، پاکستان کے زرعی اور صنعتی شعبہ جات میں 2047ء تک جی ڈی پی میں 17 فیصد کی کمی ہو سکتی ہے۔

2022ء کے سیلاب نے پاکستان کی جی ڈی پی میں 8 فیصد کی کمی کی جبکہ پاکستان میں غربت کو کم کرنے کی تمام تر کوششوں پر پانی پھیرنے کے لیے جی ڈی پی میں 9 فیصد کمی کافی ہوگی۔ اگر موسمیاتی خطرات جیسے ہیٹ ویوز اور سیلاب کا سلسلہ جاری رہا تو ملک کی سالانہ اقتصادی پیداوار میں 18 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔فضائی آلودگی جو خطرناک حد تک ناقص ہوا کے معیار کے ساتھ بہت سے شہروں کو بری طرح متاثر کرتی ہے، جی ڈی پی میں مزید 4 فیصد کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ ایک بڑا ہندسہ ہے جس کے نتائج تمام شعبہ جات میں محسوس کیے جائیں گے۔ وسائل میں مزید تناؤ، ترقی میں رکاوٹ اور صحت عامہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔میکرو لیول پر موسمیاتی واقعات اور قرضوں کا امتزاج غریب ترین طبقات پر بھاری بوجھ ڈال سکتا ہے جس سے ان کے لیے بقا کی جدوجہد مشکل ہوجائے گی۔ بے عملی یا سست اصلاحات کے اخراجات بڑھ سکتے ہیں۔ اگرچہ کوئی بھی یقین کے ساتھ مستقبل کی پیش گوئی نہیں کر سکتا لیکن موسمیاتی تناؤ کے وسیع منظرنامے پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق متوقع سالانہ نقصانات ہر سال 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی رقم ہے جو پاکستان کی ترقی کے پہیے کو پٹری سے اتار سکتی ہے، موسمیاتی لچک، ترقی کے اہداف اور اقتصادی استحکام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جس سے پاکستان زیادہ موافق طاقت بننے کی اپنی کوششوں سے دور ہوسکتا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو تخلیقی، گھریلو موسمیاتی مالی معاونت کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ حل ممکن ہے لیکن اس کے لیے ایک معاون ریگولیٹری ماحول اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو جدت کو فروغ دے۔ بہت سے حل مقامی ہونے چاہئیں جو پاکستان کی مخصوص ضروریات اور چیلنجز کے مطابق ہوں۔عالمی بینک کے مطابق پائیدار ترقی اور صحت کے لیے پاکستان کو 2030ء تک 348 ارب ڈالر زکی ضرورت ہوگی۔ یہ ملک کو درپیش بے پناہ مالی اور قرض کے چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے جوکہ عوامی اور توانائی کے شعبہ جات میں مسائل سے پیچیدہ ہیں۔ کچھ اندازے بتاتے ہیں کہ 2050ء تک، پاکستان کو آب و ہوا سے ہونے والے نقصان کی سطح 13 کھرب ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔

متبادل اقدامات

مذکورہ بالا تجاویز فوری طور پر مؤثر ثابت نہیں ہوں گے۔ پاکستان کے لیے پہلا اہم قدم موسمیاتی ایمرجنسی کا اعلان ہے۔ ایسا گھبراہٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ایک سنجیدہ، متحد کال ٹو ایکشن کے طور پرکرنا ہوگا۔ یہ آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کی عجلت کا اشارہ دے گا اور اثرات کو کم کرنے اور طویل مدتی حل کی جانب کام کرنے کے لیے تمام شعبوں میں مربوط کوششوں کو متحرک کرے گا۔پاکستان کے شہروں بالخصوص جنوبی علاقوں میں غیرمعمولی گرمی پڑتی ہے جہاں درجہ حرارت باقاعدگی سے 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جبکہ دادو اور جیکب آباد جیسے مقامات میں پارہ 53 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے جو انہیں کرہ ارض کے چند گرم ترین علاقوں میں شامل کرتا ہے۔ اس کے باوجود پبلک سیکٹر کی جانب سے صورت حال کی سنگینی کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں فہم کی کمی ہے۔اس کے برعکس برطانیہ میں جب درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تو وہ موسمیاتی ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہے۔ پاکستان کو بدلنا ہوگا۔ موسمیاتی بحران حقیقی اور وجودی ہے یعنی اس سے ملک کی بقا کو خطرہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہر سرکاری محکمے کو اپنے بجٹ اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میں موسمیاتی تحفظات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو اعلانات کے بجائے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری بات یہ کہ 2047ء پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی وژن، اس حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے کہ اکثر منصوبوں اور حقیقی نتائج کے درمیان اہم فرق ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے متنوع جغرافیہ والے ملک میں جہاں پہاڑوں سے لے کر ڈیلٹا موجود ہیں، وہاں موسمیاتی چیلنج زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ ملک کو صرف نظریاتی منصوبوں سے آگے بڑھنا چاہیے اور فعال طور پر وجودی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ موسمیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ملک کو مختلف شعبہ جات اور حکومتی سطح پر، مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ محض سنہرے خواب بُننے اور کاغذ پر اچھے منصوبے پیش کرنے سے متعلق نہیں۔ اس وقت حکومت کے مختلف حصے اور شعبے اکثر الگ الگ کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ترقی کی رفتار کم ہوتی ہے۔ ’سائیلو ٹرف انٹرینچمنٹ‘ ایک رکاوٹ کی مانند ہے جو تعاون کو روکتی ہے جبکہ نئے آئیڈیاز کو حکومت اور کاروبار دونوں میں استعمال ہونے سے روکتی ہے۔ اس سے پبلک سیکٹر میں اختراعات کی راہ تنگ ہوتی ہے جبکہ حقیقی نتائج بھی سامنے نہیں آ پاتے۔ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں مختلف شعبے اور تنظیمیں مل کر کام نہیں کرتی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ان کے درمیان تنازعات ہوتے ہیں۔ اگرچہ کاربن غیرجانبداری (کاربن کے اخراج کو صفر تک کم کرنے) کے حصول کے لیے حکومت اور نجی کمپنیز دونوں کی جانب سے مربوط اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نجی شعبے کو اکثر اس لیے استثنیٰ مل جاتا ہے کیونکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے۔

پاکستان کو ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے جس میں بہت سے عوامل شامل ہوں جیسے شجرکاری کے لیے قواعد، اخراج کو کم کرنے کے لیے انعامات، کاروباروں کی درجہ بندی کرنے کے لیے ایک ایسا نظام جو ماحول دوست ہو، سپلائی چین میں ماحولیاتی اثرات کا پتا لگانا اور یورپی یونین کی جانب سے کاربن بارڈر ٹیرف جیسے جرمانے سے بچنے کے لیے پالیسیز کو ہم آہنگ کرنا وغیرہ۔ ان اقدامات کے بغیر پاکستان کو اپنے موسمیاتی اہداف تک پہنچنے اور عالمی منڈیوں میں مقابلہ کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پاکستان کے موسمیاتی اہداف جنہیں Nationally Determined Contributions (NDCs) کہا جاتا ہے، ترقی یافتہ ممالک کی طرح پُرعزم ہیں اور اگر نجی شعبہ منصوبہ بندی میں شامل ہو تو ان کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ، توانائی، بجلی اور پٹرولیم جیسے اہم شعبہ جات کو اس کوشش کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔اگرچہ الیکٹرک گاڑیاں پرانی انجن گاڑیوں کے متبادل کے طور پر ایک اچھا حل ہیں لیکن مقامی صنعتوں، گاڑیوں کے درآمد کنندگان اور مختلف سرکاری وزارتوں کے درمیان ہم آہنگی منظم نہیں ہے۔ ہم آہنگی نہ ہونا ایک مسئلہ ہے جسے حل کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان الیکٹرک گاڑیوں، خاص طور پر دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو یہ اخراج اور مقامی آلودگی کو بہت کم کر سکتا ہے اور اس سے صاف ہوا اور بہتر ماحول پیدا ہوگا۔

جہاں تک بات قابلِ تجدید توانائی کی ہے تو نجی شعبہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے فیصلے اور اقدامات لے رہا ہے۔پاکستان میں بہت سی کمیونٹیز نے شمسی توانائی کے استعمال میں پیش قدمی کی ہے جسے ’زبردست سولر رش‘ کہا جاتا ہے۔ صرف ایک سال میں پاکستان کی کُل نصب شدہ شمسی صلاحیت کا ایک تہائی حصہ یعنی سولر پینلز کی ایک قابل ذکر تعداد چین سے درآمد کی گئی ہے جس سے لوگوں کو سستی اور قابل اعتماد بجلی تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم اب حکومت اور پالیسی ریگولیٹرز کو نجی شعبے سے ہم قدم ہونا ہوگا۔ انہیں ان چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت ہے جو سسٹم میں بہت زیادہ شمسی توانائی ہونے کے ساتھ آتے ہیں۔پاکستان کے صوبوں میں ایک ’سبز‘ مستقبل اور آب و ہوا کی پالیسیز پہلے سے ہی موجود ہیں۔ اس وقت ملک کو فوری طور پر اپنے پانی کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرسبز پاکستان کا وژن کاغذ پر ہے لیکن اصل چیلنج پانی کی کمی اور آلودگی کو دور کرنا ہے۔ ملک کو 2025ء تک پانی کی قلت کے سنگین خطرے کا سامنا ہے۔

دریائے سندھ جو صدیوں سے پاکستان کے آبی نظام کا ناگزیر حصہ رہا ہے، اب فضلہ اور نقصان دہ کیمیکلز سے آلودہ ہوچکا ہے جس سے یہ دنیا کا دوسرا آلودہ ترین دریا بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے زیرِ زمین آبی ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔اگرچہ اقوام متحدہ کی ایجنسیز پانی کے ذرائع کو ری چارج کرنے کے منصوبوں میں پاکستان کی مدد کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن صرف ان کوششوں سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکے گی۔ پاکستان میں پانی کا بحران اس قدر شدید ہے کہ اسے حل کرنے کے لیے چھوٹے اقدامات کافی نہیں ہیں۔ملک کو اپنے ’گرین پاکستان‘ کے وژن کی تکمیل کے لیے ایک جامع ’بلیو پاکستان پالیسی‘ کی ضرورت ہے۔ پانی اور ماحولیاتی پائیداری پر مرکوز دونوں پالیسیز کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ انہیں پانی اور خوراک کی عدم تحفظ کے ایک دوسرے سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے مربوط ہونے کی ضرورت ہے۔

اگر پاکستان ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنانا چاہتا ہے تو پانی کے استعمال کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر میں اہم تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ پانی کے انتظام کے لیے ابتدائی انتباہی نظام کی تعمیر، پانی کے استعمال کی نگرانی اور انتظام کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال (واٹر ٹیلی میٹری) اور پانی کے استعمال کی عادات کو بدلنا ہوگا۔ یہ بڑے آب پاشی کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اہم اقدامات ہیں۔اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرات سے نبردآزما ممالک میں شامل ہے اور فی شخص پانی کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک میں صفِ اول کے 10 ممالک میں شامل ہے۔ ہمیں اس نظریے کو بدلنا ہوگا کہ پاکستان کے پاس پانی کے لامحدود وسائل ہیں۔پاکستان کو موسمیاتی حل کے لیے بین الاقوامی تنظیموں پر بہت زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ سرکاری دفاتر اور پالیسی ساز، بین الاقوامی ایجنسیوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ حل اور منصوبے تجویز کریں گے جبکہ پاکستان کے اپنے حکام اس حوالے سے کوئی واضح ہدایات نہیں دیتے۔ اس سے ان بیرونی ایجنسیز پر حد سے زیادہ انحصار پیدا ہوتا ہے حالانکہ وہ حقیقی طور پر مقامی، گھریلو حل کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم متعلقہ پاکستانی محکمہ جات کی کاوشوں کے بغیر یہ تنظیمیں مؤثر طریقے سے معاونت نہیں کرپائیں گی۔ پاکستان کو اپنے موسمیاتی منصوبوں کو خود چلانا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مقامی منصوبوں کی وضاحت اور اس کے اپنے اداروں کے ذریعے عمل درآمد کیا جائے۔

غیر ملکی امداد میں کمی اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کی روشنی میں، پاکستان اپنی موسمیاتی ترجیحات خود طے کرے۔ اقدامات کی رہنمائی کے لیے بین الاقوامی اداروں پر انحصار کرنے کے بجائے پاکستان کو اپنی ضروریات اور مقامی بنیاد پر اس بات کا تعین کرنے میں پیش پیش رہنا چاہیے کہ اسے کیا اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ ملک کو بیرونی ہدایات پر انحصار چھوڑنا ہوگا اور ان تجاویز پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جو پاکستان کے منفرد جغرافیہ، موسمیاتی چیلنجز اور ترقیاتی اہداف کے مطابق ہوں۔ پاکستان کو اپنی آب و ہوا کی حکمت عملی کو سنبھالنا چاہیے اور ایسی موافقت کو تیار کرنا چاہیے جو عملی ہوں اور قومی ترجیحات کے مطابق ہوں۔اس صدی میں بقا کے لیے موافقت اور مزاحمتی رویہ اپنانا ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات جیسے شدید گرمی، بہت تیزی سے شدت اختیار کررہی ہے اور ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ ہم سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک کی جانب سے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کا انتظار کریں۔اس پالیسی میں موافق سماجی تحفظ، تباہی کے خطرے کو کم کرنے کی حکمت عملیوں کا مرکزی حصہ ہونا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر معاشرے کی کمزور کمیونٹیز کومدد فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، انہیں مزید لچکدار بنانے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرتا ہے۔ تمام اخراجات اور منصوبہ بندی کے فیصلوں کے لیے نہ صرف انفراسٹرکچر بلکہ موسمیاتی اعتبار سے موافق فصلوں اور پانی کے انتظام سے لے کر آفات کے خطرے میں کمی، جنگلات کی بحالی، شہری صفائی، آلودگی پر قابو پانے اور توانائی کی منتقلی تک ہر چیز کے لیے لچکدار اصول ہونے چاہئیں۔

خیال یہ ہے کہ چونکہ بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے دنیا کو زیادہ شدید موسم کا سامنا ہے، اس لیے آبادی کو غیر متوقع تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا اور ایسی حکمت عملی تیار کرنا بہت ضروری ہے جو انہیں مضبوط، زیادہ موافقت پذیر اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل بنائیں۔مقامی سطح پر لچک پیدا کرنے کے لیے جدت کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔ کاروباری افراد پہلے ہی پلاسٹک اور فضائی آلودگی جیسے مسائل کے لیے کم لاگت کے حل تیار کر رہے ہیں۔ تاہم یہ اسٹارٹ اپ اکثر اپنے آئیڈیاز کو پیٹنٹ کرنے یا اپنی مصنوعات کو بڑھانے کے لیے سپورٹ میں کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر فصلوں کی باقیات کو جلانا اور بھارت سے چلنے والی ہواؤں سے پنجاب میں آلودگی ہوتی ہے لیکن اس کا حل صرف کسانوں کو سزا دینا نہیں ہے بلکہ انہیں متبادل طریقے اپنانے کی ترغیب دینا بھی ضروری ہے۔ ان تبدیلیوں کو انجام دینے کے لیے تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں سائنسی اختراعات، تعلیم اور پائیدار طریقوں پر مبنی مستقبل کے لیے ضروری تبدیلی کا باعث بنے گی۔

بین الاقوامی موسمیاتی فنانس اکثر زیادہ ترقی یافتہ اور قابل ممالک کے حق میں ہوتا ہے جس سے زیادہ کمزور ممالک کو نقصان ہوتا ہے۔ لہذا ایسے منصوبوں کو تیار کرنے کے لیے ممالک کی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے جو فنڈنگ لا سکیں، ایکویٹی کو بڑھا سکیں اور مالی امداد کو محفوظ کر سکیں۔آب و ہوا سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فنانسنگ اور گورننس دونوں کی صلاحیتیں بہت اہمیت کی حامل ہوں گی خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو پہلے ہی بار بار شدید موسم کا سامنا کررہے ہیں۔ مختلف شعبہ جات میں بڑے پیمانے پر مسائل کو روکنے کے لیے بڑی مداخلت کی ضرورت ہوگی۔ ورلڈ بینک کے مطابق جب پاکستان اپنے اہداف کو ٹھوس اقدامات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مربوط کوششوں کے ساتھ تیزی سے کام کرے تو پیش رفت کے لیے اسے 3.8 ارب ڈالرز سالانہ درکار ہوں گے۔آب و ہوا کے نقصانات کے لیے واجب الادا مالی امداد اور معاوضے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے، پاکستان کو معمول کے طریقوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے پاکستان کو مالی اور تکنیکی دونوں طرح کی مدد کے لیے جرات مندانہ اور واضح درخواستوں پر عمل کرنا چاہیے۔

کاربن غیرجانبداری کے لیے اپنی قومی سطح پر طے شدہ شراکت کو اپ ڈیٹ کرنے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوپ 29 میں پیش کرنے کے لیے ایک نیا آئیڈیا ہے۔ اس خیال میں عالمی برادری سے بین الاقوامی سطح پر طے شدہ شراکت کی تلاش شامل ہے جو پہلے وسائل کی منتقلی کے حقیقی وعدوں سے گریز کرنے میں مہارت رکھتی ہے جس سے ترقی پذیر ممالک میں لچک پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔2019ء کے بعد سے ممالک نے مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن وہ اربوں ڈالر کی کمی کا شکار ہیں۔ اب آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ تیزی سے آگے بڑھیں اور یہ ظاہر کریں کہ ان کے منصوبے سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں ورنہ انہیں مزید قرض لینا پڑے گا۔ یہ غیر منصفانہ ہے خاص طور پر چونکہ زیادہ تر یہ ممالک آلودگی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر یہ ممالک ماحولیاتی انصاف کے بارے میں عالمی مباحثوں میں مضبوط آواز اٹھانے جا رہے ہیں تو صورت حال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔صرف کاربن کی تجارت سے مسئلے کے حل کی توقع رکھنا غیر حقیقی ہے۔ تاہم پاکستان پہلے ہی ترقی کر رہا ہے جیسا کہ سندھ میں مینگروو کی بحالی کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک کے ذریعے قدرتی وسائل پر کام کیا جارہا ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کو اختراعی، گھریلو موسمیاتی تبدیلی کے مالیاتی حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ اگر ملک صحیح ریگولیٹری ماحول اور ان کی مدد کے لیے مراعات پیدا کرے تو یہ حل ممکن ہیں۔ہمیں مقامی سطح پر اپنی بقا اور مستقبل کے حوالے سے تجاویز پیش کرنی ہیں کیونکہ ہماری مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ عمل درآمد کی صلاحیت مکمل طور پر ہمارے اختیار میں ہے۔

 

لکھاری سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے